درپردہ و طویل جنگ کے بعد ایران اور اسرائیل آمنے سامنے

0

پراکسیوں سے لڑتے لڑتے اسرائیل اورایران بالکل ایک دوسرے پربراہ راست حملہ کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ یکم اپریل کو دمشق میں سفارتی دفتر پر ہونے والے حملہ میں کئی ایرانی فوجی ماہرین مارے گئے تھے مگر یہ حملہ ان معنوں میں اشتعال انگیز تھا کہ سفارت کاروں اورسفارتی اہلکاروں’فوجی یا غیرفوجی‘پر کارروائی عالمی سفارتی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور ایک طرح سے اعلان جنگ ہے۔ ایران نے شام کے اندر اس کے عملہ اور عمارت پرفوجی حملہ کا جواب دینا ضروری سمجھااور گزشتہ دنوں 13اپریل کو ایران کے 200سے زائد میزائلیں اور ڈرون حملوں نے پورے خطے میں کشیدگی کوبڑھادیا ہے۔

آج جمعہ کی صبح کو اسرائیل نے ایران کے اندر نیوکلیئر ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ابتدائی اطلاعات سات شہروں کو ٹارگیٹ کرنے کی ہیں۔ ایران نے پہلے ہی آگاہ کیا تھا کہ اس کے نیوکلیائی تنصیبات کونشانہ بنایاگیا تو اس کے سخت نتائج برآمدہوں گے۔ اسرائیل نے اس حملہ میں عراق اورشام کے مقامات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ عالمی سطح پر اس کا شدیدردعمل نظر آیا ہے اور دونوں ممالک سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ صبر اور ضبط کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی کو پھیلنے سے روکیں۔ اگرچہ اسرائیل نے 19اپریل کے حملوں کے بارے میں کچھ نہیں کہاہے مگر اسرائیل کے وزیر برائے سلامتی امورایتمار بن گویر جو نتن یاہو کے مقابلے میں بھی سخت گیر اور انتہاپسند مذہبی نظریات کے حامل ہیں، نے 19؍اپریل کی اسرائیلی کارروائی کو کمزورعمل قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹ ’ایکس‘پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایتمار بن گویرنے اس حملہ کو ’لنگڑاحملہ‘ قرار دیا۔ ایتمار کے تبصرے پر سابق وزیراعظم لیپڈ ایئر نے کہاہے کہ ان کا ایران کے حملہ کو ’لنگڑا‘ردعمل قرار دینا بہت نقصان پہنچانے والا ہے اور ملک کی امیج کو خراب کرنے والا ہے۔ خیال رہے کہ ایتمار 7اکتوبر 2023کے حماس حملے کے بعد بنائی گئی ہنگامی کابینی کمیٹی برائے سیکورٹی کے اہم رکن ہیں۔ اور وہ ایران کو نیست ونابود کرنے والے حملہ کی بات کرتے ہیں۔ان کا کہناہے کہ 19اپریل کاحملہ بہت زیادہ سخت اوربھیانک ہوناچاہیے تھا۔ اس پوری بیان بازی سے اسرائیل کے اندر کی خلفشار اورجوتم پیزار طشت ازبام ہوگئی ہے۔

مگردنیابھر کے دفاعی امور کے ماہرین اسرائیل کے ذریعہ ایران کے اہم شہر اصفہان پرحملہ کو مختلف پہلوؤں سے دیکھ رہے ہیں۔ اصفہان بنیادی طور پر قومی تنصیبات سے گھراہوا شہر ہے۔ یہاں کے زیرزمین اڈے اور تنصیبات کو نشانہ بنانا اسرائیل کا مقصد رہاہوگا۔ ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پرامریکہ، اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک کی نظر ہے۔ ان ممالک کو لگتاہے کہ نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے کی ایران کی کوشش پوری دنیا کوایٹمی جنگ کے دہانے پردھکیل دے گی جبکہ اسرئیل کے ’مجوزہ‘ نیوکلیئر ہتھیار کو ’دفاعی کارروائی‘ کے زمرے میں رکھاجاتاہے۔
گزشتہ سال وماہ اوراس سے بھی آگے 75سال سے پوری دنیا اسرائیل کی قانون شکنی، اسلام دشمنی اور عوام دشمنی دیکھ اورسمجھ رہی ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امن عالم کادشمن کون ہے؟

ایران اور اسرائیل کے درمیان ٹکرائو اور تصادم کی طویل تاریخ ہے اور 1979کے بعد سے دونوں ممالک کئی محاذ اور کئی ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے نظرآتے ہیں ۔ عراق شام لبنان ، بحر احمر اور دیگر کئی قریبی اور دوردراز کے ممالک میں تصادم ظاہر ہوتارہا ہے۔ ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور سعودی عرب نے بھی باقاعدہ اسرائیل کے ساتھ کوئی رابطہ قائم نہیں کیا ہے اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ علاقہ میں کشیدگی تصادم او جنگ کو ختم کرنے کے لیے سعودی عرب نے علاقے کے کئی ممالک کو اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے اور یو اے ای ، اردن وغیرہ نے اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کرلیے ہیںمگر ابھی بھی اسرائیل کی بدخوئی اور خراب ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کئی مسلم ممالک اور عرب -اسرائیل کے ساتھ فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل نے بہ زور بازو یا بہ الفاظ دیگر بندوق کی نوک کے دہانے پر عرب اور مسلم ملکوں سے سفارتی ، تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کرکے اپنی معیشت کو بہتر بنایا اور عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو بڑھانا چاہتا ہے۔ غزہ پر حالیہ بربریت اور ظلم وستم کے دوران بھی وہ چاہتا ہے کہ عالم اسلام کا سب سے اہم اور طاقت ور ملک سعودی اس کے ساتھ مراسم قائم کرے۔ تاکہ خطے میں اس کو اپنی معیشت کو مضبوط کرنے اور دائرہ کار کو وسیع کرنے کا موقع مل جائے، وہ چاہتا ہے پوری دنیا اس کو گلے لگائے اور وہ تمام بین الاقوامی قوانین ، انسانی اقدار کی پامالی کرتے ہوئے بھی دنیا کا اعلیٰ ترین لاڈلا ملک بنا رہے۔ وہ فلسطینیوں کو بھون ڈالے، مسجدوں کو آگ لگا دے، بچوں کے خون سے ہولی کھیلے اور اس کے باوجود سعودی عرب اس کو گلے لگائے۔ ایران کو تباہ کردیاجائے۔ اقوام متحدہ کے عظیم ادارے کے کارکنوں ، افسران کو قتل کیا جاتا رہے اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اس کو یہ یاددلائیں کہ مسئلہ فلسطین 7اکتوبر 2023کے بعد اچانک کھڑا ہونے والا مسئلہ نہیں ہے بلکہ گزشتہ 75 سال اور پچاس سال سے چلا آرہا ہے ۔ ایک ایسا تنازع ہے جس نے پورے مغربی ایشیا اور ایشیا کے امن کو بربار کررکھا ہے اور ایک فلسطینی ریاست کے معرض وجود میں نہ آنے کی وجہ سے ایک عظیم قوم اور بہادر ملک آزادانہ زندگی گزارنے سے محروم ہیں۔ ایک بڑی آبادی کا بڑے رقبہ پر غاصبانہ قبضہ اور اس کی بڑی آبادی کو بے گھر ، بے آب وگیاہ رکھ کر ان پر سال میں ایک دو مرتبہ بم برسا دیے جاتے ہیں ،ان کی اپنی سرزمین پر ان کو غلام بنا کر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ان کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جاتاہے اور اس پر بھی یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ مزاحمت نہ کریں، اپنے بچوں کو اسی طرح خاموشی سے مرتا دیکھتے رہیں۔ عصمت لٹوانے پر آہ نہ بھریں۔ قبرستان سے لاشیں نکالنے پر اف تک نہ کریں۔

اب 7اکتوبر 2023کے بعد صورت حال بدلی ہوئی نظر آرہی ہے۔ 189دن تک لگاتار آسمان ، زمین اور سمندر سے بم باری کے بعد اس تنازع میں سرگرم رول ادا کرنے والے ایران اور اس کے حلیف (پراکسیوں )کے خلاف کافی حد تک مسلسل او ر یکطرفہ کارروائی کا جواب اس وقت دینا شروع کیا جب دمشق میں ایران کے قونصل جانے پر حملہ کرکے، اس کے اعلیٰ قومی اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ صورت ایک مسلسل اور بڑے پھیلائو والے تنازع میں بدل جانے کا اس کا اندیشہ اسرائیل کو نہیں تھا مگر یکم اپریل کے حملہ نے ایران کی عزت نفس کو جھنجھوڑ دیا اور اس کو اسرائیل کے خلاف براہ راست کارروائی کا حیلہ ہاتھ لگ ہی گیا۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS