پھر طشت ازبام: شاہنواز احمد صدیقی

0

شاہنواز احمد صدیقی

ایک بار پھرامریکہ نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں فلسطین کو ایک مستقل ممبرکا درجہ دینے کی قرارداد کو ویٹو کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کی منشا کیا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی خاص طور پر اپنے پرانے حلیف ملکوں سعودی عرب، دیگرمسلم وعرب عوام کے بیانات اور قانونی اور اصولی موقف پراس کا طرزعمل وہی اندھی اسرائیل نوازی پرمبنی ہے جو دہائیوں سے چلا آرہا ہے یااس میں کوئی معمولی،غیرمعمولی یاانقلابی تبدیلی یا لچک نہیںآئی ہے۔

گزشتہ سات ماہ سے اسرائیل غزہ پر آگ اور بم برسارہاہے اوراس پر خطرناک حد تک گولہ بارود اور دیگر تباہ کن اجزا سے آلود تباہ کن مواد اورگیس بھی گراکر معصوم لوگوں اور بچوں وعورتوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے الزامات لگتے رہے۔ پوری دنیا جس میں خود امریکہ اور اسرائیل کے دیگر حلیف بھی شامل ہیں، اس کی ٹھوڑی میں ہاتھ ڈال کر منت سماجت کرتے نظارے آتے ہیں اور’مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوری ریاست‘ اسرائیل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتاہے۔ زبانی جمع خرچ کے بعد جب اقوم متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں 75سال سے بے انصافی، تشدد جھیل رہے فلسطینیوں کوان کا بنیادی حق دینے کی بات ہوئی تو اقوام متحدہ میں فلسطین کو ایک مستقل اور مکمل رکن بنانے کی قرارداد آئی توایک بارپھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ امریکہ کارویہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

18اپریل کو سیکورٹی کونسل میں جب فلسطینی ارباب حل وعقد کے ذریعہ قرارداد پیش کی گئی تو امریکہ نے اس قرارداد کوویٹو کردیا جبکہ پوری دنیا میں انصاف پسند یکساں حقوق، مواقع، انسانی سفارتی حقوق کی بات کرنے والے برطانیہ نے ووٹنگ سے غیرحاضر ہوکر اپنادامن بچانے کی کوشش کی۔ ایک اورممبرکونسل سوئٹزرلینڈ نے بھی برطانیہ کی طرح خود کو ووٹنگ سے غیرحاضرررکھا۔ سیکورٹی کونسل میں اس بابت جوقرارداد پیش کی گئی تھی، اس میں کہاگیاتھا کہ فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کا (مکمل)ممبر بنایاجائے اور 2012سے قائم نام ممبرآبزرور اسٹیٹ(Non-Member State) درجہ کوبڑھایاجائے۔
اس بابت قرارداد الجیریا کے سفیر کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ اپنی قرارداد میں الجیریا نے کہاتھا کہ اگر ہم اس قرارداد کو پاس نہیں کرپاتے تو یہ کبھی ختم نہ ہونے والی شرمناک صورت حال ہوگی۔ سفیرکبیر کا یہ موقف درست ہے کہ یہ ایک کبھی ناختم ہونے والی شرم ہوگی۔ اسرائیل کے حلیف امریکہ نے اکیلے ہی دم پر اس قرارداد کو نامنظور کردیا۔ امریکہ کارویہ فلطینیوں کے تئیں اسی طرح کا رہا جس طرح غزہ پر جنگ بندی پر رہا ہے۔ صہیونی ریاست کو غیرقانونی،غیراصولی حمایت دیتے ہوئے امریکہ نے ایک بار پھر ویٹو کردیا۔ اس بابت کسی بھی قرارداد کے پاس ہونے کے لیے سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبران کی مکمل حمایت درکار ہوتی ہے اور پانچ طاقتوں میں سے کوئی بھی ملک کسی بھی قرارداد کو ردکردیتا ہے تو یہ قرارداد رد ہوجاتی ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ دنیابھر کے سنگین ترین مسائل اور بحرانوں پرگفتگو کرنے اور غوروخوص کرنے کے لیے بنائے گئے اقوام متحدہ وہ مطلوب مقام نہیں ہے جہاں یہ تنازع حل کیاجاسکے۔ امریکہ کا کہناہے کہ فلسطین اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرکے اس دوریاستی فارمولے کوعمل میں لائے۔اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعہ فلسطینی ریاست کاقیام ممکن نہیں ہے۔

اس منفی رویہ کے باوجودبھی امریکہ کے ڈپٹی سفیر رابرٹ ووڈ کاکہناہے کہ وہ اس مسئلہ میں دوریاستی تصفیہ کاحامی ہے۔ جبکہ ان کی بغل میں بیٹھے اسرائیلی سفیر گیلاڈار ڈا ن کا کہناہے کہ ان کا ملک مکمل دوریاستی فارمولے کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری عالمی برادری دوریاستی فارمولے کوتسلیم کرتی ہے۔فلسطینیوں کو کہناہے کہ 137ممالک نے اپنے آپ میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے ممبرممالک کی تعداد193ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں قرارداد کے رد ہونے کے بعد فلسطینی موقف کے سامنے قرارداد کو جنرل اسمبلی میں لے جانے کاراستہ بچتا ہے۔ اس قرارداد پرمکمل عمل آوری کے لیے ضروری ہے کہ سیکورٹی کونسل اورجنرل اسمبلی دونوں میں یہ پاس کی جائے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS