سنجے رائے
ایران نے گزشتہ ہفتے یعنی 13 اپریل 2024 کو اسرائیل پر 300 سے زیادہ میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ کرکے شام کے دارالحکومت دمشق میں اپنے سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کا بدلہ لے لیا۔ اس حملے میں ایرانی سیکورٹی گارڈس کے کئی اعلیٰ فوجی افسران مارے گئے تھے۔ ایران نے اسرائیل پر جو حملہ کیا ہے، اسے اب تک کا سب سے بڑا حملہ بتایا جا رہا ہے۔ اب اسرائیل، ایران کے اس حملے کا جواب دینے کی تیاری میں ہے۔ اس لڑائی میں امریکہ اور برطانیہ سمیت یوروپ کا پورا ناٹو گروپ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ میزائل حملے کے بعد فلسطین پر اسرائیل کے حملوں کے خلاف اب ایران کھل کر میدان جنگ میں کود پڑا ہے۔
ایران کے حملے کے بعد اپنے عوام کا زبردست دباؤ برداشت کر رہی اسرائیل کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ایران کو سبق سکھانے کی بات کہی ہے۔ حملے کے بعد اسرائیل کی جنگی کابینہ مسلسل اجلاس کر رہی ہے۔ حملے کے تیسرے دن اسرائیل کی جنگی کابینہ کے اجلاس میں ایران کے خلاف جوابی کارروائی کی منظوری دے دی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ جوابی حملہ کب کیا جائے گا۔ اسرائیل اور مغربی ایشیا کی سیاست کے ماہرین کی آرا مانیں تو ایران کے خلاف جوابی کارروائی کے حوالے سے اسرائیل تذبذب میں ہے، کیونکہ اس کے دو بڑے اتحادیوں امریکہ اور یوروپ نے اسے تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔
نیتن یاہو حکومت پر ایرانی حملے کا سخت جواب دینے کے لیے زبردست گھریلو دباؤ ہے۔ ایسی صورت میں سب سے زیادہ اندیشہ اسی بات کا ہے کہ اسرائیل ایران کے ایٹمی مراکز پر حملہ کر سکتا ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک طویل عرصے سے یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ایران ایٹم بم کی تیاریوں میں مصروف ہے اور اس کی جوہری تنصیبات اسی کام میں لگی ہیں۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو اسرائیل اپنے وجود کے لیے خطرہ مانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایران کے اندر جوہری مراکز کو نشانہ بنا سکتا ہے مگر دنیا کی بڑی طاقتیں جس صورتحال سے دوچار ہیں،اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ایران کے جوہری مراکز پر حملہ اسرائیل کے لیے آخری متبادل ہوگا۔
یہ ستم ظریفی ہی ہے کہ 1948 میں جب اسرائیل ایک ملک کے طور پر وجود میں آیا تھا تو سب سے پہلے ایران نے ہی اسے تسلیم کیا تھا۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان کوئی سرحد بھی نہیں لگتی ہے۔ فی الحال دونوں ممالک کے مابین کاروباری رشتے بھی نہیں ہیں۔ ایک وقت تھا جب اسرائیل، ایران کو ہتھیار اور ٹیکنالوجی فراہم کرتا تھا اور بدلے میں وہ ایران سے تیل درآمد کرتا تھا مگر 1979 میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے کھلے ہوئے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سے امریکہ اور ایران کے تعلقات بھی خراب ہیں۔ خمینی اسرائیل اور امریکہ کو شیطانی ملک مانتے تھے۔ اس کے بعد ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ بڑھتا رہا۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ حزب اللہ کو ایران نے پیدا کیا ہے۔ یہ تنظیم یہودیوں کے وجود کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اسرائیل مسلسل یہ الزام بھی لگاتا رہا ہے کہ ایران اس کے جہازوں پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایران کا الزام ہے کہ اس کے یورینیم پلانٹ کی تباہی میں اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ ایران نے شام میں ایرانی شہریوں پر حملے کا الزام بھی اسرائیل پر عائد کیا ہے۔
بتا دیں کہ اسرائیل 1981 میں عراق کے نیوکلیئر ری ایکٹر اور 2007 میں شام کی نیوکلیئر سائٹ پر بمباری کر چکا ہے۔ ایران کی زیادہ تر جوہری سائٹیں زیر زمین ہیں جس کی وجہ سے ان تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے لیے اسرائیل کو امریکہ کی مدد کی ضرورت ہوگی لیکن امریکہ اور یوروپ فی الوقت اس اقتصادی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کی براہ راست کوئی مدد کر سکیں۔ ایسی صورت میں اسرائیل کے لیے بدلہ لینے کا دوسرا متبادل یہ ہے کہ وہ سائبر حملہ کر کے ایران کے فوجی نظام کو تباہ کر دے۔ اگر اسرائیل ایسا کرتا ہے تو اس میں کم لوگ مارے جائیں گے مگر ایران کے فوجی اور مواصلاتی نظام کی خرابی کی وجہ سے پورے ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو جائے گا۔ اسرائیل نے پہلے کئی اعلیٰ ایرانی جوہری سائنس دانوں اور انٹلی جنس اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے۔ ایسے میںایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنی خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے ایرانی حکام کو چن چن کر نشانہ بنائے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پوری مغربی ایشیا میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں کا ایک بڑا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے۔ ان میں لبنان میں حزب اللہ اور یمن کے حوثی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ عراق اور شام میں بھی ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہ ہیں۔ ایران ان گروہوں کو اسلحہ اور ٹریننگ فراہم کرتا ہے جس کے بدلے میں وہ تہران کی حمایت میں اسرائیل اور مغربی ممالک کے اہداف پر حملے کرتے ہیں۔ اسرائیل گروہوں کے جنگجوؤں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اسرائیلی فوج نے لبنان میں حزب اللہ کے لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے مسلم ممالک کے سربراہ بننے کی مقابلہ آرائی رہی ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کے حملے نے اس مقابلہ آرائی میں شدت پیدا کر دی ہے۔ متحدہ عرب امارات، ترکی اور ایران اس دوڑ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیل اس وقت فلسطین میں خفیہ دشمنوں کو ختم کرنے کے نام پر پوری مسلم دنیا کو سبق سکھانے پر توجہ مرکوز کیے ہوا ہے۔ اس وقت اسرائیلی فوج کے سامنے رفح شہر میں موجود حماس کے 8 ہزار جنگجوؤں کو ختم کرنے کی چنوتی ہے۔ اگر وہ ایران سے الجھتا ہے تو اسے دو محاذوں پر لڑنا پڑے گا۔ یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل- غزہ جنگ پہلے دن سے ہی ایران کے خلاف جنگ ہے۔ تہران سے ٹریننگ اور فنڈنگ پانے والے حماس کو شکست دیناایران کے خلاف اسرائیل کی فتح کی علامت ہوگی جبکہ اسرائیل بھلے ہی ایران کے خلاف جوابی کارروائی کی بات کر رہا ہے مگر موجودہ عالمی صورتحال میں جوابی حملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ میں یہ انتخابی سال ہے۔ صدر بائیڈن پر غزہ میں اسرائیلی کارروائی کے حوالے سے اپنے ووٹروں کا دباؤ ہے۔ ایسے میں امریکہ ایک نئی جنگ میں کودنے کا جوکھم نہیں اٹھانا چاہتا۔ صدر بائیڈن نے نیتن یاہو کو واضح پیغام دیا ہے کہ ایران کا حملہ ناکام بنا دیا گیا ہے اور اسرائیل کو نیا حملہ کرکے تنازع بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یوروپی ممالک بھی ایران کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی کے حق میں نہیں ہیں۔
اسلامی دنیا کی قیادت ایران کرے، اس بات کو عرب، مصر، ترکی جیسے ممالک بھلے ہی پسند نہ کریںلیکن وہ اسرائیل پر ایرانی حملے کی مخالفت بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وہ اس لڑائی میں خاموش رہ کر ایران کے ساتھ کھڑے ہیں، کیونکہ قیادت کا معاملہ بعد میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ روس، چین اور شمالی کوریا پوری طرح سے تہران کے ساتھ رہیں گے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں ایران کو جواب دینا اسرائیل کو بھاری پڑ سکتا ہے۔ حالانکہ اسرائیل نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف اس کی کارروائی مشرق وسطیٰ میں اس کے دوستوں کو خطرے میں نہیں ڈالے گی اور ایران کو ان پر حملے کا بہانہ نہیں دے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل، ایران پر حملے کے لیے اپنے اتحادیوں کی فضائی حدود استعمال نہیں کرے گا۔
اسرائیل کا اگلا قدم جنگ کی دِشا-دَشا طے کرے گا۔ خیال رہے کہ حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اس کا ایسا جواب دیا جائے گا کہ دنیا یاد رکھے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آنے والے وقت میں دنیا کا جغرافیہ بھی بدل دیا جائے گا۔ دنیا میں اس وقت دو بڑی جنگیں چل رہی ہیں۔ یوکرین کے ساتھ روس کی جنگ جاری ہے اور اسرائیل-ایران ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں۔ یہ دنیا کی بدقسمتی ہے کہ ان جنگوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی آگے نہیں آ رہا۔ ایسی صورت میں مستقبل تشویشناک نظر آتا ہے۔ اسرائیل ہر حال میں ایران کے حملے کا جواب دے گا، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ n