ایم اے کنول جعفری
یکم اپریل 2024 کو شام کے شہر دمشق میں واقع ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کے حملے کے بعد ایران کی طرف سے جوابی حملے کا جو اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، وہ صحیح ثابت ہوا۔ ایرانی حملے سے تلملائے اسرائیل کی جنگی کابینہ کے اجلاس میں ایران کو سخت جواب دینے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ اسی لیے تنازع کے جنگ میں تبدیل ہونے کا اندیشہ قوی ہو گیا ہے۔ ایران نے حملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کے حق میں اٹھایا گیا قدم بتایا ہے جبکہ اسرائیل کا دو ٹوک کہنا ہے کہ جو اس پر حملہ کرے گا، وہ اس پر جوابی حملہ کرے گا۔ جی-7 کے ملکوں امریکہ، جاپان، جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور کناڈا کے سربراہان کے ورچوئل ہنگامی اجلاس میں اسرائیل سے یکجہتی کا اظہار و مکمل حمایت اور ایران کی مذمت و سخت پابندیاں لگانے کا فیصلہ آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرے گا۔ اس بابت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران کی مذمت اور اسرائیل کی حمایت توکی گئی لیکن اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ملتوی کر دیا گیا۔
ایران نے 13 اپریل کی رات میں 330 میزائل اور ڈرون سے اسرائیل پر تاریخی حملہ کرتے ہوئے قونصل خانے پر حملے کا جواب تو دیا ہی، بڑی حد تک یہ ثابت بھی کردیا کہ اس نے حملے کی دھمکی ہی نہیں دی تھی، حملہ کرنے کے لیے سنجیدہ بھی تھا۔ تہران کی جانب سے یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ تل ابیب نے اگر اس پر حملہ کرنے کی حماقت کی تو اپنے دفاع میں وہ مزید سخت حملوں سے معقول جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سعید ایرونی نے امریکہ،برطانیہ اور فرانس کے رویے کو منافقانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی حملے کے بعد اس کا بدلہ مکمل ہو گیا۔ اس کا مزید کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ایران نے یہ حملہ چوری چھپے نہیں کیا بلکہ ببانگ دہل کیا ہے۔ ایرانی سفارت خانے سے متصل ایرانی قونصل خانے کی ملحقہ عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں اسلامی پاسداران انقلاب کور کے سینئر قدس فورس کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اور دیگر افسران سمیت 12 افرادہلاک ہوئے تھے۔ کئی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں نے حملے کی مذمت کی تھی جبکہ امریکہ نے قونصل خانے پر حملے میں ملوث ہونے یا پہلے سے حملے کی معلومات ہونے سے انکار کیا تھا۔
ایران کی دھمکی کے بعد اسرائیل نے اپنی سرحدوں پر حفاظت کے پختہ انتظامات کیے تھے، فضائی ایروایئر ڈیفنس سسٹم کو پوری طرح تیار رکھا تھا۔ اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی اور اتحادی ملک امریکہ نے بحیرۂ روم میں دو بیڑے اور بحری ڈسٹرائر تعینات کرکے مدد پہنچائی۔ ایران کے مطابق اس نے اسرائیل کے ان فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جن سے دمشق میں موجود ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے جنوبی اسرائیل میں نفاطیم فوجی اڈے اور وہاں کھڑے طیاروں کو نقصان پہنچنے کا اعتراف کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہاگری نے اسرائیلی ایئر بیس کے 3 رن ویز کو نقصان پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔ اس حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کو غزہ کی جنگ میں حماس اور اس کے اتحادیوں کے پاس کے ہتھیاروں کے مقابلے مختلف اور پیچیدہ بتایا گیا۔ حملہ ناکام بنانے کے لیے اسرائیل نے نہ صرف اپنے ایروایئر ڈیفنس سسٹم کا استعمال کیا بلکہ اس کے اسٹرٹیجک اتحادیوں نے بھی اس کی مدد کی۔
اس سے قبل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان اور کویت نے امریکہ کو ایران کے خلاف اپنی سرزمین میں بنائے گئے فوجی اڈوں کے استعمال کی اجازت دینے سے منع کر دیا تھا۔ امریکہ نے عرب ممالک میں موجود اپنے فوجی اڈوں میں تقریباً 40 ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ حملے کے بعد برطانیہ نے اسرائیل کی مدد کے لیے رائل ایئرفورس کے جیٹ طیارے اور ایئر ایندھن بھرنے والے ٹینکر بھیجے ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فریقین سے مزید کارروائیوں سے گریز کرنے کو کہتے ہوئے انتباہ دیا کہ مشرق وسطیٰ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے اور دنیا اس وقت ایک نئی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ خلیجی مجلس تعاون (جی سی سی) کے سکریٹری جنرل جاسم محمد البدیوی نے ایران اور اسرائیل کی کشیدگی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے علاقائی اور عالمی امن برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اسی طرح کے بیان میں فریقین سے تحمل سے کام لینے کے ساتھ سلامتی کونسل سے بروقت اہم کردار ادا کرنے کو کہا۔ چین نے اسرائیل پر ایرانی حملے کے حوالے سے تشویش کا اظہارکرتے ہوئے فریقین سے غیر معمولی ضبط و تحمل سے کام لینے کو کہا۔ ایران اور اسرائیل کے ساتھ کافی اچھے تعلقات رکھنے والے ہندوستان نے تل ابیب اور تہران کے درمیان فوجی تصادم پر تشویش کے اظہار کے ساتھ تشدد اور ٹکراؤ کا راستہ چھوڑ کرسفارت کاری سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی صلاح دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین اور اسرائیل کے مابین گہرے سفارتی اور معاشی تعلقات ہیں تو اسی نے ایران اور سعودی عرب کے مابین چلی آ رہی تلخی کو ختم کراکر سفارتی تعلقات بحال کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی کے مدنظر امریکہ نے چین سے کہا تھا کہ وہ ایران کو اسرائیل پر حملہ کرنے سے روکنے کے لیے اپنے اثر کا استعمال کرے۔
اسرائیل پر حملے کے باوجود امریکہ نے ایران پر جوابی حملے کی صورت میں اسرائیل کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے جبکہ سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے موجودہ صدر جو بائیڈن کو اکساتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ صدر ہوتے تو ایران، اسرائیل پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ اس حملے میں ایران کے 836 کروڑ روپے اور دفاع میں اسرائیل کے قریب ایک ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اس حملے میں سعودی عرب اور اردن نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ اسرائیلی اخبار ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق، جہاں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اردن نے اسرائیل پر داغے گئے ایرانی میزائلوں کو روکا وہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی حملے ناکام بنانے میں اسرائیل کی مدد کی۔
ایران-اسرائیل تنازع پر بھی مغربی ممالک کا دوہرا معیار رہاہے۔ یکم اپریل کو ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کے حملے کی امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت کئی بڑے ممالک نے مذمت نہیں کی تھی لیکن ایران پر دباؤ بناتے رہے تاکہ وہ اسرائیل پر حملہ نہ کرے۔ اسرائیل نے اچانک حملہ کیا تھا جبکہ ایران نے باضابطہ اعلان تھا کہ اسرائیل کو جواب دے گا۔ اسرائیل کی حمایت میں کھڑے ممالک اگر چاہتے تو فلسطین میں آگ، بارود، قتل وخون اور غارت گری کا ننگا ناچ چھ مہینے سے زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ ممالک اسرائیل کو غزہ میں قتل عام کی ذمہ داری سے محفوظ ہی نہیںکر رہے ہیں بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی سے چشم پوشی کیے ہوئے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ غاصب اسرائیل کو تو تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن فلسطین کو مملکت کے طور پر منظور نہیں کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ مغربی طاقت کا دوہرا معیار نہیں ہے؟
اس میں دو رائے نہیں ہے کہ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑتی ہے تویہ غزہ جنگ کی طرح محدود نہیں رہے گی۔ اس کے اثرات مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں پر بھی پڑیں گے۔ حالانکہ امریکہ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہونے کی صورت میں شامل ہونے اور اسرائیل کی مدد کرنے سے منع کر دیا ہے لیکن اپنے قول پر اگر وہ قائم نہیں رہا اور خلیجی ممالک میں بنے اپنے فوجی اڈوں کا استعمال کرنے لگا تو ایران ان اڈوں پر بھی حملہ کرے گا؟ یہ ایک جواب طلب سوال ہے۔n
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)