محمد فاروق اعظمی
آج سے تین دن بعد ملک میں لوک سبھا انتخاب 2024 کے پہلے مرحلہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ا س مرحلہ میں 102پارلیمانی سیٹوں کیلئے کل 1618امیدوار اس بار میدان میں ہیںلیکن ان میں سے 252 یعنی 16فیصد ایسے امیدوار جو قانون کی نظر میں ’مجرم‘ داغدار اور قانون کو مطلوب ہیں۔قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کرنے اور ملک کو جرائم سے پاک بنانے کاعزم ظاہر کرنے والی سیاسی جماعتوں نے ان مجرموں کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے ان ہی مجرم امیدواروں کے ساتھ انتخابی جلسوںمیں یہ کہتے ہوئے نظرآرہے ہیں کہ ان کا مقصد قانون کی بالادستی، جرائم سے پاک معاشرہ اور امن و امان کا قیام ہے۔ سیاسی جماعتوں کی اسی دوہری پالیسی کی وجہ سے نہ معاشرہ سے جرائم ختم ہورہے ہیں اور نہ مقننہ میں مجرموں کے داخلہ پرکوئی پابندی لگائی جارہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کا مقصد معاشرہ میں امن و امان کا قیام اور جرائم کا خاتمہ نہیں بلکہ ایوان میں کسی طرح عددی برتری حاصل کرنا ہے تاکہ حکمرانی کا موقع حاصل کیاجاسکے، اس کیلئے سیاسی جماعتیں ان ہی امیدواروںپر دائو لگاتی ہیںجن کے جیتنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر انتخاب میں مجرمانہ پس منظر والے نمائندوں کی تعداد کچھ بڑھی ہوئی ہی درج ہوتی ہے۔ملک میں ہونے جارہے 18ویں لوک سبھا انتخاب میں ایک بار پھر سے بڑی تعداد میں مجرمانہ شبیہ کے لیڈر میدان میں اترنے جارہے ہیں۔ ملک میں پہلے مرحلہ میں 1618امیدوار اس بار میدان میں ہیں لیکن ان میں سے 252 یعنی 16فیصد امیدواروں پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ پہلے مرحلے کے امیدواروں میں سے 252 امیدوار یعنی تقریباً 16 فیصد داغدار ہیں۔ ان میں سے 161 کے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ ان میں سے 15 فیصد مختلف مقدمات میں سزا یافتہ ہیں۔ یہ انکشاف انتخابی اصلاحات کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز(اے ڈی آر)کی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ اے ڈی آر نے پہلے مرحلے کے 1,618 امیدواروں کے انتخابی حلف ناموں کا تجزیہ کیا ہے اور کہا ہے کہ تقریباً 28 فیصد یعنی 450 امیدوار کروڑ پتی ہیں۔ اسی وقت، امیدواروں کا اوسط اثاثہ تقریباً 4.51 کروڑ روپے ہے۔تجزیہ کے مطابق راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے 100 فیصد امیدوار داغدار ہیں۔ پہلے مرحلے میں اس کے چار امیدواروں میں سے دو کے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ 34فیصدداغدار امیدواروں کو ٹکٹ دے کر قومی پارٹی کا درجہ رکھنے والی پارٹیوں میں کانگریس سب سے پیچھے ہے، جب کہ بی جے پی نے بھی 36فیصد داغدار امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے،جن میں کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر گرفتاری سے بچنے کیلئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اور پارٹی نے انہیں لوک سبھا 2024 کا امیدوار بھی بنادیا ہے۔ان میں نوین جندل بھی شامل ہیں جن کے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی نے چارج شیٹ داخل کی ہے۔ نوین جندل مارچ 2024 میں بی جے پی میں شامل ہوئے اور کچھ دنوں کے بعد انہیں پارٹی ٹکٹ مل گیا۔ ایسی ہی ایک مثال گیتا کوڈا کی ہے جنہیں کانگریس سے بی جے پی میں آتے ہی امیدوار بنایا گیا تھا۔ ان کے شوہر مدھو کوڈا کے خلاف بدعنوانی کے کئی مقدمات زیر التوا ہیں۔
بی جے پی کے18فیصد اور کانگریس کے 17فیصد امیدواروں کے خلاف سنگین مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ بی ایس پی نے سب سے کم داغدار 13 فیصد پر میدان مارا ہے۔ 7 امیدواروں کے خلاف قتل جیسے سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ 19 امیدواروں کے خلاف اقدام قتل کے مقدمات درج ہیں اور 18 امیدواروں کے خلاف خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ ان امیدواروں میں سے ایک پر عصمت دری کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ 35 امیدوار ایسے ہیں جن کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے پر مقدمات درج ہیں۔
اعدادوشمار سے صاف ہوجاتا ہے کہ مستقبل میں کافی تعداد میںایک بار پھر سے داغی امیدوار منتخب ہوکر ایوان میں جائیں گے۔ ابھی تک پہلے مرحلہ کے اعدادوشمار سامنے آئے ہیں اور پہلے مرحلہ میں ہی سیاسی پارٹیوں نے داغیوں کو ٹکٹ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔سیاسی جماعتوں کے اس رویہ کی وجہ سے ہی ملک کی سیاست میں داغیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
اگر الیکشن کمیشن کے اعداد وشمارپرغور کریں تو ملک میں مقننہ کے 36فیصد اراکین سنگین مجرمانہ معاملات میں ملوث ہیں۔پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 4896 ہے۔ 2014 سے 2017 کے درمیان 1765 عوامی نمائندوں یا قانون سازوں کے خلاف مقدمات زیرالتوا ہیں۔مرکزی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دیے گئے ایک حلف نامہ کے مطابق بدعنوان، راشی، مقدمات میں ماخوذ ارکان کے معاملہ میںاترپردیش پہلے نمبر پر ہے جہاں سب سے زیادہ 248 قانون سازوں کے خلاف معاملات درج ہیں۔ 178 معاملات کے ساتھ تمل ناڈو دوسرے نمبر پر، 144 معاملات کے ساتھ بہار تیسرے نمبر پر اور 139 معاملات کے ساتھ مغربی بنگال چوتھے نمبر پر ہے۔ قانون سازوں پر جن جرائم کیلئے مقدمات چل رہے ہیں ان میں قتل، اقدام قتل جیسے سنگین الزامات نیز سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے وغیرہ جیسے الزامات شامل ہیں۔ دیکھاجائے تو ملک کی سیاست میں داغی لیڈروں کی بھرمار ہے۔پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے موجود ہ اور کچھ سا بق ارکان کے خلاف 4122مجرمانہ معاملات زیرالتوا ہیں اور ان میں سے کچھ تو تین دہائی سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ دراصل اپنی دولت اور طاقت کااستعمال کرتے ہوئے یہ داغی لیڈران اپنے اوپر قائم مقدمات کو طویل عرصہ تک لٹکائے رہتے ہیں اوراس درمیان وہ انتخاب لڑتے ہیں اور جیت کر ایم ایل اے، ایم پی بن کر وزارت تک پہنچ جاتے ہیں۔اگر ان لیڈروں کو مقررہ وقت کے اندر سزادی جائے تو جرائم میں ماخوذان عوامی نمائندوں کا حوصلہ پست ہوگا اور سیاسی پارٹیاں بھی ایسے لوگوں کو انتخابی میدان میں اتارنے سے گریز کریں گی۔ مقررہ وقت کے اندر سزا نہ مل پانے کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کو یقین ہوگیا ہے کہ جو جتنابڑا داغی ہے، اس کے الیکشن جیتنے کے اتنے ہی امکانات ہیں۔اس طرح ایوان میں اپنی عددی برتری کیلئے سیاسی پارٹیاں اپنے دامن میں غلاظت سمیٹ لیتی ہیں۔دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ یہ بدعنوان اور داغی لیڈران انتخاب جیتنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔
یہ صورتحال عوام کی استعداد انتخاب کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی ہوس حکمرانی اور جمہوریت سے کھلواڑ کا بھی مظاہر ہے۔ کسی بھی حال میں اسے بہتر نہیں کہاجاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کو مجرموں کی آماجگاہ نہ بنانے کے لاکھ دعوئوں کے باوجود سیاسی جماعتیں اس پر عمل کرتی نظر نہیں آتیں۔اس سمت اگر تھوڑا بہت کام ہوا ہے تو وہ سپریم کورٹ کی کوششوں سے ہوا ہے جس نے ملک کی سیاست کو صاف ستھرا بنانے کیلئے کئی رہنما ہدایات جاری کی ہیں۔ان میں تین سال یا اس سے زیادہ سزا پانے والے لیڈروں کے انتخاب لڑنے پر پابندی بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی سپریم کورٹ کی کئی ایسی دوسری ہدایات ہیں جن پر اگر سیاسی جماعتیں عمل کریں تو سیاست سے جرائم کو پاک رکھنے اور مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد کے سیاست میں داخلہ پرقابو پایاجاسکتا ہے۔
[email protected]