پروفیسر اسلم جمشید پوری
ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کا حال زیادہ اچھا نہیں ہے۔ انٹر میڈیٹ کے بعد گریجویشن، پوسٹ گریجویشن، ریسرچ کے امتحانات، داخلے کے امتحانات،مقابلہ جاتی امتحانات اور ملازمت کے امتحانات کے معاملے میں ہمارا ملک دوسرے کئی ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ایک تو پڑھائی دوسرے امتحان کا نظام بہت پیچیدگی بھرا ہے۔ہندوستان میں ہر سطح کے امتحان کا دارومدار تحریر پر ہے۔80 فیصد ہمارے امتحانات تحریر ی ہو تے ہیں۔اگر کسی کی تحریر گندی ہے یعنی کسی کی ہینڈ رائٹنگ خراب ہے تو وہ کسی بھی امتحان میں اچھے نمبر نہیں لا سکتا۔
ہمارے ملک میں اکثر بند، چکاجام، ریلیاں، فرقہ وارانہ فسادات،کرفیو وغیرہ کے حالات بن جاتے ہیں۔ عام زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔ روڈ راستے، آٹوٹیمپو، بس، ریل، سب بند ہوجاتے ہیں۔ایسے میں سب سے زیادہ متاثر اسکول،کالج اور یونیورسٹیز ہوتی ہیں۔جہاں امتحانات کے مراکز ہوتے ہیں۔ امتحانات رد یا معطل ہوتے ہیں۔ ایسا ہو نے پر نقصان کسی کا نہیں ہوتا، صرف وہ طلبا جو امتحان دیتے ہیں،خسارے میں رہتے ہیں۔پیسے والے طلبا کا بھی کچھ نہیں بگڑتا،بلکہ غریب طلبا کا بہت برا حال ہوتا ہے۔کئی بار بیچارے ان بچوں کے قیام،کھانے پینے،مقامی سفر اور گھر واپسی کا بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔
پیپر سخت آنے یا کسی اور مطالبے کے لیے طلبا یونین بہت سے پیپر میں واک آئوٹ کر دیتے ہیں۔کئی بار یہ واک آئوٹ تشدد آمیز ہوجا تا ہے۔ طلبا امتحان دینے والے طلبا کی کاپیاں پھاڑ دیتے ہیں، مخالفت کرنے والے بچوں کی پٹائی کرنے سے بھی واک آئوٹ کر نے والے طلبا گریز نہیں کر تے۔واک آئوٹ والے پرچوں کے دوبارہ امتحانات کئی کئی ماہ بعد ہوتے ہیں۔ان میں محنت کرنے والے غریب طلبا کا بھاری خسارہ ہوتا ہے۔
نقل کرناصرف دنیاوی ہی نہیں مذہبی اعتبار سے بھی غلط ہے۔لیکن بہت سے طالب علم نقل کا سہارا لیتے ہیں۔جیسے جیسے زمانہ بدلتا ہے۔نئے نئے آلات،میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال بڑھنے لگا ہے۔نقل کرنے کے طریقے بھی بدل گئے ہیں۔نقل کرنے کے ایسے طریقے سامنے آگئے ہیںکہ حیرانی ہو تی ہے۔نقل ماس لیول پر ہونے لگی ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ اس نقل پر مشتمل کہانی پر کئی مشہور فلمیںریلیز ہوچکی ہیں،خاص کر ’’منّابھائی ایم بی بی ایس‘‘،’’لگے رہو منّا بھائی‘‘ نے خوب بزنس کیا۔غنڈہ گردی نے نقل کو ایک الگ ہی رخ دیا۔دیکھتے دیکھتے پورے ملک میں کوچنگ مراکز اور پرائیویٹ پروفیشنل کالجز کا جال پھیلتا گیا۔ان بڑے بڑے کوچنگ مراکز اور کالجز نے جہاں مقابلے کا ماحول بنایا، وہیںنقل کو بھی بڑھاوا دیا۔نقل کے بہت سے طریقے سامنے آتے گئے۔نقل کرانے میں بہت سے گروہ حرکت میں آگئے۔
موجودہ زمانے میں نقل گروہ کو نقل مافیا کہا جانے لگا۔نقل ایک صنعت کا درجہ حاصل کرتا گیا۔اب نقل کرانے والے لوگوں کو سالور گینگ کہا جا نے لگا ہے۔ان سالور گینگ نے نقل کو ایک نیا رخ دیا ہے۔سالور گینگ اب بڑے بڑے امتحانات میں سوالات کو حل کرنے کا مشکل کام کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ چِپ،بلو ٹوتھ اور دیگر آلات کا استعمال کرتے ہیں۔آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ سالور گینگ میں زیادہ تر بہت قابل،ماہراور تجربہ کار لوگ ہوتے ہیں۔یہ لوگ بہت جلد مشکل سے مشکل سوال کو بھی حل کر دیتے ہیں۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کئی امتحان میں بہت سے مراکز پرامتحان دینے والوں کو نقل کرنے کے لیے بہت سی سہولیات دی جاتی ہیں،جس کے لیے بہت زیادہ رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔
نقل مافیا اور سالور گینگ نے اب نقل کو مزیدصیقل کرتے ہوئے پیپر ہی لیک کرانا شروع کر دیا ہے۔ امتحان سے قبل ہی پورا پیپر سالور گینگ کے پاس آجاتا ہے۔اس گینگ کے ممبر اس پیپر کو ہزاروں روپے میں فروخت کرتے ہیں۔اس طرح لاکھوں اور کروڑوں روپے کے وہ مالک بن جاتے ہیں۔سالور گینگ کا جال پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔کسی ایک ریاست کا کوئی پیپر لیک ہوتا ہے تو دوسری ریاستوں کا سالور گینگ اس میں ملوث ہوتا ہے۔ساتھ ہی اس کے تار ملک کے دور دراز شہروں میں بھی ہوتے ہیں۔ اب تک بہت سے امتحانات کے پیپر لیک ہوچکے ہیں۔جن میں کئی اہم امتحان شامل ہیں۔پیپر لیک ہونے کے زیادہ چانس پریس،پیپر ڈھونے والی گاڑی کاڈرائیور اور پیپر کی رکھوالی کرنے والے گارڈز، جیسے مقام پر ہوتے ہیں۔ فروری میں اترپر دیش میں پولیس کی بھرتی امتحان کا پیپر لیک ہوا تھا۔ موجودہ اترپر دیش سرکار نے اس کو اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے،اس کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔حزب ِاختلاف کے لیڈر اکھلیش یادو نے یو گی سرکار کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔لاکھوں طالب علم جو اترپر دیش پولیس کی اس بھرتی میں امتحان دینے والے تھے، وہ خود کو ٹھگا ہوا سا محسوس کر رہے ہیں۔ان کی فیس کے کروڑوں روپے اس پیپر لیک کی نذر ہوچکے ہیں۔
23 مارچ کو ایک انٹر ویو میں وزیراعلیٰ اترپر دیش یوگی نے کہا کہ لوک سبھاانتخاب کے بعد پیپر لیک معاملے کے لیے جو سخت قانون بنے گا، وہ لاگو ہوجائے گا۔ کسی کو نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلنے نہیں دیا جا ئے گا۔یوپی ایس ٹی ایف کی میرٹھ یو نٹ نے 10اپریل میں پیپر لیک معاملے کے سرغنہ روی اتری کو گوتم بدھ نگر سے گرفتار کر لیا ہے۔پہلے ہی اس گینگ کے 17ممبران کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔روی اتری کی گرفتاری کے بعد اس معاملے کے ہر پہلو سے پردہ اٹھنے کی امید بڑھ گئی ہے۔ روی اتری نے ہی آر او،اے آر او کا پیپر بھی لیک کرایا تھا،جسے اس نے 20لوگوں کو فروخت کیا تھا۔اس کام میںاس کا ساتھ سبھاش پرکاش(مدھو بنی، بہار) نے دیا تھا۔روی اتری نے ایک بڑا گینگ بنا لیا تھا۔ وہ گوتم بدھ نگرکے ایک گائوں کا رہنے والا تھا۔اس کا ایک بھائی فوجی ہے اور والد کسانی کرتے ہیں۔روی اتری اصل میں 2012میں ایم بی بی ایس کی تیاری کے سلسلے میں کوٹا گیا تھا،جہاں اس کا واسطہ اتُل وتس سے پڑا تھا۔آہستہ آہستہ اس نے جرائم کی دنیا میں قدم رکھا اور اپنا ایک بڑا گینگ بنا لیا۔آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ فی الحال اس کے گینگ میں200سے زیادہ لوگ ہیں،جو الگ الگ ریاستوں کے رہنے والے ہیں۔ان لوگوں نے بہار اساتذہ بحالی امتحان،ایل ٹی گریڈ امتحان اور نجانے کتنے امتحانوں کے پیپر لیک کرائے تھے۔ ابھی تک اس گروہ کے ساحل، نوین، دیپک، ستیش دھنکڑ، شوم گری، شبھم منڈل، بٹّو، پروین، راجیو، روہت پانڈے، امت سنگھ، ابھیشیک شکلا سمیت تقریباً ڈیڑھ درجن لوگ گرفتار ہوچکے ہیں اور اتنے ہی لوگ فرار ہیں۔ان کی گرفتاری کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ روی اتری نے بہت کچھ قبول کرلیا ہے اور بہت سے راز ابھی اس کے سینے میں ہیں۔
یہ پورا گینگ اوریجنل امیدوار کی جگہ اپنے ساتھیوں کو امتحان میں بٹھاتا ہے۔دوسری ترکیب یہ بھی ہوتی ہے کہ آس پاس کی سیٹوں پر یہ گینگ اپنے ممبران کو بٹھاتا ہے تا کہ اوریجنل امیدوار کی مدد کی جا سکے۔اس طرح سالور گینگ بچوں کا سخت پیپر حل کر نے میں تعاون کرتا ہے۔ ایسا کر کے بہت سے لوگ نوکریاں تک حاصل کر لیتے ہیں۔اس طرح کے کئی گینگ کام کر رہے ہیں۔دن رات محنت کرنے والے طالب علم ناکام ہوجاتے ہیں،جبکہ رئیس اور تفریح کرنے والے بچے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ناکام بچے خاصی تعداد میں ہر سال خود کشی کر تے ہیں۔ان خود کشیوں کے پیچھے کہیں نہ کہیں ان سالورگینگز کا ہاتھ شامل ہو تا ہے۔
بہت سے لوگ جعلی مارک شیٹ اور اسناد بنانے،فیل طالب علموں کو پاس کرانے اور نمبر بڑھوانے کا کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر یونیورسٹیز کے امتحان آفس میں چکر لگاتے رہتے ہیں اور کلرکوں سے سانٹھ گانٹھ کر لیتے ہیں۔یہ بھولے بھالے طالب علموں کو اپنے جال میں پھانس لیتے ہیںاور ان سے بھاری رقم اینٹھ لیتے ہیں۔بغیر محنت کے نمبر حاصل کرنے کی تمنا ہر نوجوان کے دل میں ہوتی ہے۔ایسے نوجوان،ان چالباز لوگوں کے ہتھّے آسانی سے چڑھ جاتے ہیں۔یہ اوریجنل کام کرانے کے پیسے لیتے ہیں،مگر وہ کام جعلی ہوتا ہے،پکڑ میں آنے کے بعد ان طلبا کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ان کاپورا مستقبل خراب ہو جا تا ہے۔تعلیم کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔غلط کام کا انجام غلط ہی ہوتا ہے۔لہٰذا طالب علم کسی غلط کام کے چکر میں نہ پڑیں، محنت کریں۔اگر فیل ہو جائیں تو دوبارہ محنت کر کے امتحان دیں،کامیابی ضرور قدم چومے گی۔
[email protected]