تاریخ کو مسخ کرنے کی نئی کوشش

0

2014 کے بعد سے ہندوستان میں سب کچھ الٹ پلٹ گیا ہے۔ ایک طرف چین ہمارا جغرافیہ بدلنے کی کوشش کررہاہے تو ہم ازخود تاریخ بدلنے کی راہ پرچل پڑے ہیں۔ گزشتہ سال بسنت پنچمی کے موقع سے ہم نے اپنے طلبا کو جدید ہندوستان کی نئی تاریخ پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ہندوستان کی ’ صحیح اور درست‘ تاریخ پڑھانے کیلئے انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (آئی سی ایچ آر) اور آر ایس ایس سے وابستہ ’اکھل بھارتیہ اتیہاس سنکلن یوجنا کے اشتراک سے تاریخ کی75نئی کتابیں شائع کی گئی تھیں۔پھرنیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ یا این سی ای آر ٹی نے اپنی 12ویں جماعت کی تاریخ کی نصابی کتاب سے گاندھی کا قتل اور گوڈسے کے کردار نیز ہندو-مسلم اتحاد کے تعلق سے کئی ابواب ہٹادیے تھے تاکہ فتنہ و فساد اور قتل وخون کے واقعات پڑھ کر ہمارے طلبا میں ’ تشدد‘ کا رجحان نہ پیدا ہو۔ان سب مشقوں کا کیا نتیجہ نکل رہاہے، اس کی بابت ابھی کوئی خبر نہیں آئی ہے لیکن ایک نیا انکشاف یہ سامنے آیا ہے کہ اب ہندوستان کی ’قدیم تاریخ‘ کو بھی مشق ستم بنانے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے۔ آثار قدیمہ سے متعلق مختلف حالات، کیفیت اور کمیت کا از سر نو تعین کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ اس کار خیر کی ذمہ داری بھی نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ(این سی ای آر ٹی ) نے رضاکارانہ طور پر اٹھائی ہے۔
این سی ای آر ٹی نے نئے تعلیمی سال سے 12ویں جماعت کی تاریخ کی کتاب میں بڑی تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔اس تبدیلی کے تحت اب ہڑپا اور موہن جوداڑوکی تہذیب کے آغاز و زوال کا ازسر نو مطالعہ ہوگا کیوں کہ آثارقدیمہ سے دستیاب ہونے والے نئے حقائق اور شواہد پرانی تاریخ کی تردید کررہے ہیں۔این سی ای آر ٹی کو یہ نئے شواہد ہریانہ کے حصار ضلع میں واقع ’ راکھی گڑھی‘ نام کے ایک گائوں سے دستیاب ہوئے ہیں۔اس گائوں کے ڈی این اے کی تلاش و تحقیق کے دوران ہونے والے مبینہ انکشافات کی روشنی میں این سی ای آرٹی نے تاریخ کی نصابی کتابوںمیں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔اب 5ہزار سال پرانی ہڑپا تہذیب کی تبدیل شدہ تاریخ تعلیمی سال 2024-25 سے این سی ای آر ٹی کی تاریخ کی کتابوں میں پڑھائی جائے گی۔وادیٔ سندھ کی قدیم ہڑپا تہذیب سے متعلق تصحیح اور حذف کو اس بنیاد پر جائز قرار دیا گیا ہے کہ آثار قدیمہ کے مقامات سے حالیہ شواہد اس باب میں تصحیح کا مطالبہ کرتے ہیں۔
این سی ای آر ٹی نے راکھی گڑھی کے حالیہ ڈی این اے مطالعہ پر تین نئے پیراگراف شامل کیے ہیں جو بنیادی طور پر آریائی ہجرت کے نظریہ کو مسترد کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہڑپا کے لوگ اس خطے کے اصل باشندے تھے۔ راکھی گڑھی میں آثار قدیمہ کی تحقیق سے متعلق نئے پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ ہڑپا کی جینیاتی جڑیں 10 ہزار قبل مسیح تک جاتی ہیں۔ ہڑپا کے لوگوں کا ڈی این اے آج تک قائم ہے اور جنوبی ایشیائی آبادی کی اکثریت ان کی اولاد معلوم ہوتی ہے۔ اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سرحدی علاقوں اور دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگ ہندوستانی معاشرے میں شامل ہو گئے تھے۔ کسی بھی مرحلے پر ہندوستانیوں کی جینیاتی تاریخ کو نہ تو روکا گیا اور نہ ہی تسلسل کو توڑا گیا۔ جیسے جیسے ہڑپا ایران اور وسطی ایشیا کی طرف بڑھنے لگے، ان کے جین بھی آہستہ آہستہ ان علاقوں میں پھیل گئے۔
تاریخ میںاس تبدیلی کے ذریعہ این سی ای آرٹی طلبا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ دنیا کا آغاز بھی ہڑپا کی تہذیب سے ہی ہواتھا اور آج دنیا میںجتنی قومیں ہیں وہ سب جینیاتی طور پر ہڑپاکی اولاد ہیںاوران کی تہذیب کا ماخذ بھی وہی ہے۔اس سے قبل قدیم ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں جو نظریات اب تک ہم پڑھتے آرہے تھے، وہ یہ تھے کہ ہندوستانی تہذیب کا ماخذ مقامی لوگوں میں ہے جو اپنے آپ کو آریائی کہتے تھے اور ویدک لوگوں سے ملتے جلتے تھے۔ اس سے الگ ہٹ کر وسیع تناظر میں یہ حقائق بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہیں کہ طوفان نوحؑ کے بعدنئی بننے والی دنیا میں آج جتنی اقوام ہیں وہ حضرت نوحؑ ؑکی تینوں اولادیں سام، حام اور یافث کی ذریات ہیں۔ ہر طرح کے مذہبی تعصب سے بالاتر ہوکر تاریخ داں اس پر متفق بھی ہیں۔علم البشریات کے ماہرین بھی اب تک اس میں کوئی ردوبدل نہیں کرسکے ہیں۔ ایک طرح سے یہ تاریخ کے ثابت شدہ اور مسلمہ حقائق ہیں جن پر پوری دنیا کا اجماع ہے۔
تاریخ بدلنے کی کوشش میںہندوستان تاریخ کو مسخ کرنے پر ہی اتارو ہوگیا ہے۔زمین پر انسانی زندگی کا آغاز، پتھر کے دور سے لے کر ترقی کے اس جدید دور تک دنیا کے سفر کی بابت ہندوستان کی بدلتی رائے دنیا سے متصادم ہے اورآنے والے دنوں میں اس کا نتیجہ بہتر نہیں نکلے گا۔خدشہ یہ بھی ہے کہ دنیا کی تمام اقوام کو ہڑپا کی اولاد ثابت کرنے کی یہ کوشش کہیں ہندوستان کوعلمی دنیا سے کاٹ کر الگ نہ کردے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS