پنکج چترویدی
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں 18 ویں لوک سبھا کے انتخابات کا جشن شروع ہوچکا ہے۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ جمہوریت کی بنیادی اساس جو عوام ہیں، تقریباًایک تہائی ووٹ ڈالنے کے لیے ہی نہیں آتے۔ آؤٹ میتھ کے نقطۂ نظر سے دیکھیں توملک کا اقتدار سنبھالنے والی پارٹی کبھی بھی اکثریت کی آبادی کی نمائندگی نہیں کرتی ہے۔ 2019 کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرس کی تعداد تقریباً 91 کروڑ تھی۔ ووٹنگ97.4 فیصد ہوئی۔ سب سے بڑی پارٹی بی جے پی کواس میں سے ملے 37. 7 فیصد ووٹ۔ مطلب یہ کہ کل رجسٹرڈ ووٹرس کا محض 30 فیصد۔ بھلا ہو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا، ورنہ پہلے غلط طریقے سے ووٹنگ کی وجہ سے پورے ملک میں اتنے ووٹ تو غیر قانونی ہوتے تھے جن کی تعداد دو لوک سبھا حلقوں کے برابر ہوتی تھی۔ حالانکہ اب کوئی بھی پسند نہیں یعنی ’نوٹا‘ ہے۔
یہ قابل غور ہے کہ کیا ووٹ نہ ڈالنے والے 33 فیصد لوگوں کی نظر میں الیکشن لڑرہے سبھی امیدوار یا موجودہ انتخابی نظام صحیح نہیں تھا یا پھر وہ ووٹنگ کے ذریعے حکومت کا انتخاب کرنے کے عمل کے تئیں لاپروا ہیں؟ جن نتائج کو سیاسی پارٹیاں عوام کی آواز کہتی رہی ہیں، دراصل وہ اکثریتی رائے دہندگان کی عدم شرکت کا نتیجہ ہوتا ہے۔
جب کبھی ووٹنگ کم ہونے کی بات ہوتی ہے تو انتظامیہ اور سیاسی جماعتیں زیادہ گرمی یا سردی ہونے، چھٹی نہ ہونے جیسی وجوہات گنانا شروع کردیتی ہیں۔ اگر گزشتہ اعداد و شمار کو دیکھیں تو ابھی تک 6 بار ووٹنگ 60 فیصد عبور کر پائی ہے جس میں گزشتہ دو انتخابات 2014 میں 66.44 اور 2019 میں 67.40 کے علاوہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے لڑا گیا 1977 کا الیکشن ہے جس میں 60.49 فیصد ووٹ پڑا۔ پھر اندراگاندھی کے قتل کے بعد ملک کے اتحاد اور سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا اور 64.1 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے نکلے۔ اس کے بعد بوفورس کا معاملہ ہوا اور ووٹنگ 61.96 فیصد ہوئی۔ پھر 1998 میں تبدیلی کے لیے ووٹ دینے والے 61.97 فیصد رہے۔ 16 ویں لوک سبھا کے الیکشن کے وقت بھی عام لوگ مہنگائی، بدعنوانی سے ہلکان تھے، لہٰذا ووٹنگ کا فیصد تب تک کی ووٹنگ میں سب سے زیادہ رہا۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جب ملک کے عوام کو اپنے غصے کا اظہار کرنا ہوتا ہے یا انتخاب اصل ایشوز پر لڑا جاتا ہے تو وہ ووٹ ڈالنے ضرور آتے ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر اتنے سارے لوگ ووٹ کیوں نہیں ڈالتے ہیں؟ سب سے زیادہ خواندہ،خوشحال اور دولت مند، بیدار اور متحرک کہے جانے والے ملک کے دارالحکومت کا جنوبی علاقہ ہو یا متصل غازی آباد اور گروگرام کے کثیر منزلہ اپارٹمنٹس، سب سے کم ووٹنگ وہیں ہوتی ہے۔ یہی نہیں، ملک کی سب سے زیادہ خواندہ ریاست کے ’ملک کے پہلے مکمل خواندہ ضلع‘ ایرناکلم میں محض 40 فیصد لوگ ہی پولنگ اسٹیشنوںتک آئے۔ یہ قابل غور ہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو سیاسی پارٹیوں اور حکومت کی زیادہ ووٹنگ کی مہم راغب کیوں نہیں کر پاتی۔ ایسا تو نہیں کہ اس طبقے کا خیال ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیے انتخابات محض اقتدار حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں اور اس میں عوام محض ذریعہ ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں کے دوران بڑے پیمانے پر نظریاتی عزم سے پرے دَل بَدل نے بھی لوگوں کا ووٹنگ کے تئیں دل اچاٹ کیا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ ناگ ناتھ اور سانپ ناتھ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے سے بہتر ہے کہ کسی کا بھی انتخاب مت کرو۔ ’’ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے‘‘ یا ’’ہمارے ایک ووٹ سے کیا ہونا ہے‘‘ یا پھر ’’ووٹ دینے پر ہمیں کیا ملے گا؟ کچھ نہیں! پھر ہم اپنا وقت کیوں ضائع کریں؟‘‘ ایسا کہنے والوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔
ووٹرس کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ امیدواروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے مقابلے نئے پولنگ مراکز کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ووٹر کی فہرست میں نام شامل کرانا بڑا پیچیدہ ہے اور اس سے بھی مشکل ہے اپنا ووٹر آئی ڈی کارڈ حاصل کرنا۔ اس کے بعدانتخابات کے لیے پہلے اپنے نام کی پرچی حاصل کرو، پھر اسے پولنگ اسٹیشن میں بیٹھے ملازم کودے کر ایک کاغذ پر دستخط یا انگوٹھا لگاؤ۔ پھر ایک ملازم آپ کی انگلی پر سیاہی لگائے گا۔ ایک ملازم ای وی ایم شروع کرے گا، اس کے بعد آپ بٹن دباکر ووٹ ڈالیں گے۔ وی وی پیٹ کی وجہ سے سات سیکنڈ ووٹر انتظار کریں گے۔ پورے عمل میں دو تین منٹ لگتے ہیں۔ ہر ووٹنگ سینٹر پر ایک ہزار سے زیادہ اور کہیں کہیں دو ہزار تک ووٹرس ہیں۔ اگر ایک ووٹر پر دو منٹ کا وقت لگائیں تو ایک گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ 30 ووٹر ہوں گے۔ اس کی وجہ سے ووٹر مراکز کے باہر لمبی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ ملک میں40فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو کہ ’’روز کنواں کھود کر پانی پیتے ‘‘ ہیں۔ اگر وہ محض ووٹ ڈالنے کے لیے لائن میں وقت لگائیں گے توروزانہ کی اجرت ماری جائے گی اور شام کو گھر کا چولہا نہیں جل پائے گا۔
ووٹنگ کم ہونے کی ایک وجہ ملک کے بہت سے علاقوں میں بڑی تعداد میں خواتین کا گھر سے نہ نکلنا بھی ہے۔ خواتین کے لیے انتخابات میں ریزرویشن کی خواہاں تنظیمیں خواتین کے ووٹ ڈالنے میں اضافے کے طریقے پر نہ تو بات کرتی ہیں اور نہ ہی کوشش۔ اس کے علاوہ جیل میں قید زیرسماعت قیدیوں اور اسپتال میں داخل مریضوں اور ان کی تیمارداری میں مصروف افراد، انتخابی نظام میں مصروف ملازمین، کسی بھی وجوہات کی بنا پر سفر کررہے لوگ، سیکورٹی اہلکاروں اور سرحد پر تعینات جوانوں کے لیے ووٹنگ کا معقول انتظام نہیں ہے۔ ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ ہوتی ہے۔ حالانکہ اب بزرگ اور کئی دیگر زمرے کے لیے ڈاک ووٹنگ اور گھر جاکر ووٹ ڈلوانے کے منصوبے بنائے گئے ہیں لیکن یہ سیاسی پارٹیوں کے مفادات کے مطابق منتخب لوگوں تک ہی محدود ہے۔
کچھ سال پہلے الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ایک میٹنگ میں ووٹ ڈالنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس عمل میں ووٹر اپنے کسی بھی نمائندے کو ووٹ ڈالنے کا اختیار دے سکتا ہے، اس نظام کے لیے عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 اور تعزیرات ہند میں ترمیم کرنا ضروری ہے۔پارلیمنٹ میں بحث کی یقین دہانی کراتے ہوئے مذکورہ اہم مسئلے کو ملتوی کردیا گیا۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ آسٹریلیا سمیت تقریباً 19 ممالک میں ووٹ نہ دینا ایک قابل سزا جرم ہے۔ کیوں نہ ہمارے یہاں بھی بغیر کسی وجہ کے ووٹ نہ ڈالنے والوں کے کچھ شہری حقوق محدود کرنے یا انہیں کچھ سرکاری سہولیات سے محروم رکھنے کا تجربہ کیا جائے۔ آج الیکشن سے بہت پہلے بڑے بڑے حکمت عملی ساز ووٹرس کی فہرست کا تجزیہ کرکے طے کرلیتے ہیں کہ ہمیں فلاں ذات یا معاشرہ یا علاقے کے ووٹ چاہیے ہی نہیں یعنی جیتنے والا خطے کا نہیں، کسی ذات یا مذہب کا نمائندہ ہوتا ہے۔یہ الیکشن لوٹنے کے ہتھکنڈے اس لیے کارگر ہیں، کیونکہ ہمارے یہاں چاہے ایک ووٹ سے جیتو یا 5 لاکھ ووٹوں سے، دونوں کے ہی پارلیمنٹ میں حقوق مساوی ہوتے ہیں۔ اگر کل ووٹنگ اور جیت کے فرق کے حساب سے علاقے کی عوامی سہولیات، وزیر بنانا وغیرہ طے ہونے لگے تو نمائندے نہ صرف ووٹرلسٹوں میں لوگو ںکے نام شامل کروائیں گے بلکہ ووٹ ڈالنے کی ترغیب بھی دیں گے۔
سیاسی پارٹیاں کبھی نہیں چاہیں گی کہ ووٹنگ زیادہ ہو، کیونکہ اس میں ان کے محدود ووٹ بینک کے اقلیت ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کوئی بھی پارٹی الیکشن کے پہلے گھر گھر جاکر ووٹر کی فہرست کی تجدید کا کام نہیں کرتی اور بی ایل او پہلے سے ہی کئی ذمہ داریوں میں دبے سرکاری ملازمین ہوتے ہیں۔ ہماری جمہوریت بھی ایک ایسے نسبتاً مثالی انتخابی نظام کا بوجھ برداشت کر رہی ہے جس میں کم از کم تمام ووٹر رجسٹرڈ ہوں اور ووٹنگ تو صحیح طریقے سے ہونا یقینی ہوسکے۔
[email protected]