توسیع کا خدشہ بڑھ گیا!

0

جنگ کرنا مشکل نہیں ہوتا، البتہ جنگ ختم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایک بار جنگ شروع ہو جائے تو حالات کو قابو میں رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ باتیں بار بار دیکھنے میں آئی ہیں۔ افغانستان کے خلاف جنگ شروع کرنے میں امریکہ کو زیادہ دشواری نہیں ہوئی تھی مگر اسے ختم کرنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عراق کے خلاف حملے کا آغاز امریکہ نے بڑی آسانی سے کیا تھا مگر عراق جنگ ختم کرنے میں اسے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان دونوں جنگوں پر توقع سے زیادہ رقم اسے خرچ کرنی پڑی تھی۔ ماضی میں سوویت روس کے پاس جنگوں کا تجربہ رہا ہے، اس لیے روسی سربراہ ولادیمیر پوتن سے یہی امید کی جاتی تھی کہ وہ کسی جنگ میں روس کو الجھائیں گے نہیں مگر دنیا کے بدلتے حالات میں ان کے لیے زیادہ دنوں تک جنگ سے گریز کرنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ وارسا پیکٹ کے تحلیل کر دیے جانے کے باوجود ناٹو کی توسیع ہوتی رہی، امریکہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہا، امریکی لیڈروں کے روس سے بظاہر بہتر تعلقات کی خواہشات کے اظہار کے باوجود روس سے امریکہ کے تعلقات کبھی اس طرح کے نہیں رہے جیسے برطانیہ سے ہیں۔ پوتن نے ایک سے زیادہ بار یہ بات کہی کہ وہ ناٹو کی توسیع اپنے ملک کی سرحد تک نہیں چاہتے۔ ان کا اشارہ یوکرین کی طرف تھا کہ وہ ناٹو کی رکنیت نہ لے لیکن یوکرین روس کا یقین جیتنے میں ناکام رہا اور اس نے اس کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوںنے یوکرین کا بھرپور ساتھ دیا اور روس کو ہر حال میں کمزور کرنے کی کوشش کی۔ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں ایسا لگا تھا کہ روس نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ کر بڑی غلطی کر دی ہے، یہ جنگ جیتنا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا مگر 7 اکتوبر، 2023 کو حماس کے حملوں کے بعد حالات بدل گئے۔ اسرائیل نے غزہ کے خلاف حملوں کی ابتدا کی تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ترجیحات کی فہرست میں سب سے پہلے یہی جنگ آگئی۔ وہ اسرائیل کی مدد اس طرح کرنے لگے جیسے غزہ جنگ میں اسرائیل کی جیت انہیں کی جیت ہوگی۔ اس سے یہ ہوا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی یوکرین کو اس طرح مدد نہیں مل پا رہی ہے جیسے پہلے ملا کرتی تھی۔ جنگ میں یوکرین پچھڑتا جا رہا ہے۔ روس اس موقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لینا چاہتا ہے۔ وہ یوکرین کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لینا چاہتا ہے تاکہ جنگ اس کے لیے آسان ہوجائے، شکست کے اندیشوں سے اسے نجات مل جائے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ٹھیک سے مدد نہ مل پانے کی وجہ سے یوکرین کی حالت خستہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، روسی فوجیوں کے حملوںنے یوکرین میں ہاہاکار مچا رکھا ہے۔ ایک ہی دن میں انہوں نے یوکرین کے 3 فائٹر جیٹ، 3میزائل لانچر اور بارود کے بڑے ذخیرے تباہ کر دیے ہیں۔یہ روسی فوجیوں کی اتنی بڑی کامیابی ہے کہ اس سے یوکرینی فوجیوں کے لیے ابھرپانا آسان نہیں ہوگا۔
بدلتے حالات نے یوروپ کے دیگر ملکوں کے لیے اندیشے پیدا کر دیے ہیں۔ یہ اندیشے غیر فطری نہیں ہیں۔ روس کے خلاف جس طرح انہوں نے یوکرین کی مدد کی ہے، اسے دیکھتے ہوئے ان کے لیے یہ اطمینان کر لینا مشکل ہے کہ روس کی فوجی کارروائی یوکرین تک محدود رہے گی، اس میں توسیع نہیں ہوگی۔ بدلتے حالات کے مدنظر ہی پولینڈ کے وزیراعظم ڈونالڈ ٹسک نے یہ انتباہ دیا ہے کہ ’یوروپ جنگ سے ٹھیک پہلے کی حالت میں ہے اور پورے براعظم کی بھلائی کے لیے یوکرین کے خلاف روس کو کسی بھی قیمت پر جیتنے نہیں دینا چاہیے۔‘ اس انتباہ سے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ جاتی کہ یوروپی ممالک یوکرین جنگ کو یوکرین تک محدود کرکے نہیں دیکھ رہے ہیں، روس کے خلاف ان کی مدد کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے مگر غزہ جنگ کی وجہ سے حالات بدلے، ان کی ترجیحات بدلیں، یوکرین جنگ میں روس کی پوزیشن مستحکم ہوئی تو یہ خوف انہیں ستانے لگا ہے کہ یوکرین جنگ کا دائرہ کہیں پھیل نہ جائے۔ غالباً یہ وجہ بھی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کو ناراض کیے بغیر غزہ جنگ ختم کرانا چاہتے ہیں یا غزہ جنگ میں عام لوگوں کی ہلاکتوں کو کم کرنا چاہتے ہیں تاکہ روس کے خلاف ماحول بنانے، انسانیت کے نام پر یوکرین جنگ کو غلط ثابت کرنے میں آسانی ہو لیکن ایسا لگتا ہے کہ وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور یہ وقت ان کے لیے بے قصور فلسطینیوں کی آہ و بکا کو یاد کرنے کا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS