ہندوستان میں جمہوریت: ختم ہوتی خوش گمانی: محمد فاروق اعظمی

0

محمد فاروق اعظمی

معاملہ کا روشن پہلو مدنظر رکھنا مثبت انداز فکر کہا جاتا ہے، بدگمانی سے بچنا اور معاملات وا فراد کے تعلق سے حسن ظن بھی تعمیر کے ذیل میں آتا ہے لیکن جب ہر طرف تاریکی کی دھند چھارہی ہو، اندھیرا چھٹنے کی دور دور تک کوئی امید نہ ہو، تخریب کاعمل تسلسل کے ساتھ جاری ہو تو ہزار طرح کے وسوسے پیدا ہوجاتے ہیں، معمولی شک و شبہ بھی ہمالیائی خطرہ نظرآنے لگتا ہے۔چند برس پہلے تک امید کی ایک آدھ کرن کہیں نہ کہیں سے آرہی تھی مگر اب تو ہر سو تیرہ و تار ہے، وسوسے سنپولے سے شیش ناگ بن کر ڈسنے لگے ہیں،شبہات ٹھوس حقیقت بن چکے ہیں کہ جمہوریت ماضی کا قصہ بن چکی ہے،وقت کا تانا شاہ ہر چیز پر قابض ہوچکا ہے۔
گزشتہ دو تین ہفتوں سے جس طرح کی خبریں آرہی ہیں، خاص طور سے پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، مرکزی تفتیشی ایجنسیوں اور مختلف ریاستوں کے راج بھون کے کام کاج کی تفصیلات، بتارہی ہیں کہ اب تاناشاہ اپنا قبضہ مستحکم اور مستقل بنانے کاکام کررہا ہے۔ حکومتیں عدالتوں سے لڑرہی ہیں، حکمراں جماعت مختلف جگہوں پر مجرموں کی طرح کام کررہی ہے اور ریاستوں کے گورنر برطانوی راج کے پالیٹیکل ایجنٹ کی طرح خراج وصولی کی راہ پر گامزن ہیں۔پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں حکمراں جماعت کی کھلی من مانی ہے، آئین کیلئے کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔آئین کے خلاف مذہب کی بنیادپر سی اے اے جیساسیاہ قانون بنایا جارہا ہے۔ احتجاج اور مظاہرہ پر پابندی ہے۔متنوع ہندوستان میں سماجی، معاشی، تہذیبی اور ثقافتی تفاوت کو خوفناک حد تک بڑھاوا دیا جارہاہے۔
اسمبلی اور راج بھون کے معاملات سپریم کورٹ میں پہنچ چکے ہیں اور سپریم کورٹ یہ دیکھ کر متحیر ہے کہ ریاست کا گورنر اس کا حکم ماننے سے انکار کررہا ہے۔ میڈیا کی فیکٹ چیکنگ کے نام پر مرکز اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگارہاہے۔فقط دو گھنٹے کے اندر دو سو ناموں سے مرکز دو نام شارٹ لسٹ کرکے، اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر الیکشن کمشنر کی تقرری کردے رہا ہے۔انتخابی بانڈس کے نام پر وصولی گینگ کی بھتہ خوری کا مکروہ عمل تو سامنے آہی چکا ہے۔ ’نہ کھائوں گا -نہ کھانے دوں گا‘ کادعویٰ کرنے والوں نے بلیک میلنگ، بھتہ اور رشوت خوری کا نیا طریقہ اپنا یا اور آئینی اداروں ای ڈی، سی بی آئی وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے ہزاروں کروڑ روپے وصول کرلیے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے حکومت کی بھتہ خوری پر پردہ ڈالنے کیلئے جس طرح عدالت سے آنکھ مچولی کھیلی، وہ بھی دنیا نے دیکھ لیا۔ انتخاب کے اس زمانے میں اپوزیشن کو میدان سیاست سے دور رکھنے کی غیرجمہوری کوشش بھی دیکھی جارہی ہے۔ کانگریس جیسی قومی پارٹی کو انتخابی مہم سے باہر رکھنے کیلئے اس کے مالی وسائل پر ڈاکہ ڈالا جارہاہے۔دہائیوں پرانے معاملات میں انکم ٹیکس کے گدھ کانگریس کے بینک اکائونٹ کو نوچ کھسوٹ رہے ہیں۔’ایک قوم- ایک انتخاب ‘ کے خوش آہنگ نعرہ کے پردے میں ہندوراشٹر کے مکروہ عزائم چھپانے کی کوشش ہورہی ہے۔
مغربی بنگال سے دہلی تک مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کی سینہ زوری بھی دیکھی جارہی ہے۔کئی ریاستوں میں غیر بی جے پی – غیر این ڈی اے پارٹیوں کی حکومتوں کو تفتیشی ایجنسیاں مشق ستم بنائے ہوئے ہیں۔ان ریاستوں میں حکمراں لیڈروں اوراعلیٰ عہدیداروں کے خلاف کارروائی پوری دنیا میں ہندوستانی جمہوریت کو موضوع بحث بنائے ہوئے ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاری، بغیر فرد جرم کے برسوں تک جیل میں قید، ضمانت حاصل کرنے کی راہ میں روڑے اٹکانے جیسا غیرقانونی عمل بھی عدالتی سرزنش کاسزاوار ہوتے دیکھا گیا۔ ہندوستان کے آئین اور جمہوریت پسندوں نے آئینی عہدہ پر رہتے ہوئے کسی وزیراعلیٰ کی گرفتاری کا منظر بھی دیکھا۔ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو صرف اس لیے گرفتار کرکے ان کے حق ضمانت کو بھی روندا جارہاہے کہ ان پر مبینہ شراب گھوٹالہ میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔جیل میںبند مسلم لیڈروں کا ایک ایک کرکے قتل کیا جانا بھی اسی تاناشاہی دور کا قصہ ظلم ہے۔ شہاب الدین،‘ عتیق احمد کے بعد یہ سلسلہ مختار انصاری تک جا پہنچا ہے، اعظم خان پہلے ہی اپنی موت کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔
اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہندوستان کا آئین دنیا کے چند بہترین آئین میں سے ہے جو ملک کے عوام کو سماجی،معاشی اور سیاسی انصاف فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے لیکن یہ آئین آج تاناشاہ کی مشق مذموم کا نشانہ بنا ہوا ہے۔جمہوریت کو کچلنے، عوام کے سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور آئین کو تار تار کرنے کا واحد مقصد ملک سے جمہوریت کاخاتمہ ہے۔یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ آج حکمرانی کرنے والوں کی جس تنظیم نے تربیت کی اورا نہیں حکمرانوں کے عہدہ پر پہنچایا، اس کا مقصد ہندوستان سے جمہوریت کا خاتمہ اور ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ہندو راشٹر کا مطلب ایک ایسا ملک جس کا نظام آئین کے بجائے ہندو مذہبی قوانین کے ذریعہ چلایا جائے۔ ایک ایسا مذہبی قانون جس میں انسان کو بحیثیت انسان بھی درجات میںتقسیم کیاگیا ہے۔ حکمرانی کیلئے مخصوص گروہ مقرر ہے، اس کے علاوہ ہر فرد و بشر حکمرانوں کا چاکر بن کر وسائل اور طاقت کے ہر ذریعہ سے محروم ہوجائے، جس میں انسانی حقوق کا کوئی گزر نہ ہو، شہریوں کے حقوق حکمرانوں کے اشارے پر دیے اور سوخت کیے جاسکتے ہوں، مذہبی اقلیتوں کا کوئی مقام نہ ہو، ان کی زندگی حکمرانوں کی مہربانی پر منحصر ہو۔راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے پروردہ حکمرانوں نے 2014 میں اقتدا ر میں آنے کے بعد سے اپنی تمام سرگرمیاں صر ف اسی ایک کازکیلئے وقف کردیں لیکن ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی آئین بنا۔اس آئین کے رہتے ہوئے نہ تو ہندو راشٹر کے قیام کا اعلان ممکن ہے اور نہ اقلیتوں کو ملک سے نکالنے کی مذموم کوشش ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔اسی لیے سطحی طور پر آئین کا احترام کرنے کے باوجود حکمراں طبقہ اس آئین کو مسلسل تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔
حالات نے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ نہ التجاکی ہمت رہی ہے اور نہ ضبط کا حوصلہ ہی باقی ہے۔ایسے میں خوش گمانی کا دامن چھوڑ کر ’کرو یا مرو‘ کا راہ رو ہی آئین اور جمہوریت کو بچاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS