اسرائیل فلسطین تنازع میں لگتا ہے کہ اب مغرب کا ضمیرجاگ رہا ہے اور آنکھیں کھلتی جارہی ہیں۔ اسرائیل کسی بھی طریقے سے غزہ میں جنگ بندی کے لئے تیار نہیں ہے، بلکہ الٹا ان ملکوںکو کھری کھوٹی سنا رہا ہے جو جنگ بندی کی بات کر رہے ہیں یا مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے دوریاستی فارمولے کی وکالت کر رہے ہیں۔ کئی ممالک خاص طور پر فرانس اوراسپین تو اسرائیل کے اس رویہ سے اس قدر ناراض ہیں کہ انہوںنے اسرائیل کے تئیں ایک نئی حکمت عملی اختیارکرنی شروع کردی ہے۔ اسپین نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی اپنے پڑوسی ملکوں اور ہم خیال ہمسایوں مثلاً آئرلینڈ، مالٹا اور سلوینیا کے ساتھ مل کر ایک جامع اور اجتماعی حکمت عملی اختیارکرنے جارہے ہیں اور وہ تمام علاقے جو مقبوضہ فلسطین کہلاتے ہیں یعنی مغربی کنارا (غرب اردن) اور غزہ کی پٹی پر ایک آزاد فلسطین ریاست کو تسلیم کرنے اور اس کو قبول کرنے کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ غزہ پر حماس کا اقتدار تھا جبکہ مغربی کنارے پر کچھ علاقوں میں فلسطینی اتھارٹی کے اقتدار والی پارٹی الفتح کا قبضہ یا اقتدار ہے۔ مغربی کنارا وہ خطہ اراضی ہے جوکہ بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے قرارادادوںکے مطابق ایک آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔ 1993-95کے اوسلو معاہدہ کے تحت اس خطے میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا منصوبہ تھا جس کو بعد کے اسرائیلی حکمرانوںنے عملی جامہ نہیں پہنایا۔ اسپین کا یہ موقف کئی معنوںمیں اہمیت کا حامل ہے۔ 7؍اکتوبر 2023کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان میں کئی ملکوں میں ان کے فلسطینی ریاست کے قیام کی بابت روایتی موقف میں کافی تبدیلی اور لچک پیداہورہی ہے۔ چند ہفتوں پہلے برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون جوکہ ایک زمانے میں برطانیہ کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ ان کا ملک فلسطینی ریاست کے قیام کے معاملے میں اپنے موجودہ موقف میں نظرثانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سے قبل امریکہ جوکہ اوسلو معاہدے کو عملی جامہ پہنانے میں کافی دلچسپی لیتا رہا ہے، اسرائیل سے الگ موقف کا حامی ہے اورامریکہ چاہتا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے بعد غزہ کی پٹی میں اپنی حکومت قائم نہ کرے اورغزہ پر اپنا کنٹرول نافذ کرنے کے موقف پر نظرثانی کرے۔ امریکہ رملہ میں مقتدر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمودعباس کے ساتھ مسلسل اور براہ راست رابطے میں ہے اور وہ جنگ بندی کے بعد ایک جوابدہ اور جمہوری طورپر منتخب کرپشن سے پاک انتظامیہ مقبوضہ فلسطین میں قائم کرنے کے لئے کوششیں کر رہا ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے اس بابت کسی بھی فریق کی بات تسلیم کرنے یا فلسطینی ریاست کے ممکنہ امکان کو مسلسل نظرانداز کرنے کا وطیرہ اختیارکئے ہوئے ہے اس کے باوجود عالمی سطح پر اس بات کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ ان علاقوں میں ایک آزاداور خودمختار فلسطینی ریاست قائم ہوجائے تاکہ فلسطینیوںکوایک آزاد ملک قائم کرنے کا موقع ملے۔ اس دوران اسرائیل کی ہٹ دھرمی بڑھتی ہی جارہی ہے اور اسرائیل کی حکومت نے مغربی کنارے میں 800ہیکٹیئر کی زمین کو ایکوائر کرنے اور وہاں پر یہودی بستیوںکے قیام کی راہ ہموارکردی ہے۔ اس علاقے کو شمالی وادی اردن یا جارڈن ویلی کہاجاتا ہے۔ اب یہ وسیع قطع اراضی اسرائیل کی مملکت کا حصہ ہوگیا ہے۔ اسرائیل کا یہ قدم ان معنوںمیں غیرمعمولی ہے کہ پوری دنیا بشمول سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبران ممالک جن میں اسرائیل کے سرپرست امریکہ اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو غیرقانونی اور بین الاقوامی قراردادوںکی صریحاً خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ فرانس نے بھی اسرائیل کے طورطریقوںکو غلط قرار دیا ہے۔ فرانس کے صدر نے غزہ کے جنوبی علاقوں میں رفح کی طرف فلسطینی عوام کو زبردستی دھکیلنے کی پالیسی کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ انہوںنے مغربی کنارے کے 800ہیکٹیئر علاقے میں اسرائیلی حکام کی زمین کوایکوائر کرنے کے فیصلہ کو بھی اسی زمرے میں رکھا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ شب اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے غزہ میں دو ہفتوں کے لئے عارضی جنگ بندی کے قرارداد کو متفقہ طورپر پاس کردی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل مسلسل فوجی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے اور غزہ میں اسرائیل کی طرف سے زبردست فوجی کارروائی جاری ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے ریزولیشن میں کہا ہے کہ فوری طورپر جنگ بندی ایک دیرپا جنگ بندی کے لئے لازمی ہے۔ اس دوران فرانس کے صدر میکروں نے اردن کے شاہ عبداللہ دوئم سے ٹیلی فون سے بات چیت کی ہے اور موجودہ صورت حال اور اسرائیلی پالیسیوں کے تئیں ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوںنے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوںکو غیرمناسب اور غیرمنصفانہ طریقے سے قحط میں جھونکا جارہا ہے۔ انہوںنے شاہ عبداللہ دوئم کے ساتھ بات چیت میں اس بات کا اعادہ کیا کہ غزہ کا خطہ فلسطینی ریاست کا حصہ بنے گا۔ انہوںنے اس معاملے میں اپنی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران کچھ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ حماس کے ذریعہ یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں میں سے 4افراد کی بھوک اور مناسب وقت پر مناسب دوا نہ ملنے کی وجہ سے موت ہوگئی ہے۔ اس دوران اسرائیل نے امریکہ کو جانے والے ایک ڈیلی گیشن کی روانگی کو منسوخ کردیا ہے جس پر امریکہ تلملایا ہوا ہے۔ بنجامن نیتن یاہوکے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو اسرائیل کے اس فیصلے پر شدید حیرت ہے۔ انہوںنے کہا کہ لگتا ہے کہ اسرائیل کی امریکہ کے تئیں پالیسی میں تبدیلی آئی ہے جبکہ انہوںنے اسرائیل کے تئیں اپنے ملک کی مکمل اور پختہ وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے تئیں اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لارہا ہے۔ خیال رہے کہ کربی کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جس وقت امریکہ میں انتخابی مہم اپنے شباب پر ہے۔ اسرائیل کومعلوم ہے کہ اس کی حکمت عملی یا اس طرح کے اعلانات سے امریکہ یا اس کے لیڈر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتے جوکہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اثرانداز ہونے والا ہو۔ اس دوران ایک دلچسپ بیان ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک چونکادینے والا بیان دیا ہے۔ انہوںنے کہا ہے کہ اسرائیل کو بہرحال غزہ میں جنگ بندی کرنی پڑے گی۔ یہ بات انہوںنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہی ہے جو پچھلے دنوں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا بیان کئی معنوںمیں دلچسپی کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اب اسرائیل کو محتاط رہنا پڑے گا کیونکہ اب اسرائیل کو عالمی سطح پر جو حمایت اورمدد مل رہی تھی وہ کم ہوگئی ہے۔ خیال رہے کہ سابق صدرڈونالڈ ٹرمپ اسرائیل کے صف اول کے وفاداروںمیں سے ہیں اور انہوںنے اپنے دوراقتدار میں ہی یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرلیا تھا۔ یہ قدم نہ صرف یہ کہ امریکہ کے روایتی موقف کی خلاف ورزی تھا بلکہ اقوام متحدہ عالمی قوانین کے رو سے بھی سراسر غلط تھا۔
٭٭٭
مسئلۂ فلسطین:کیا مغرب کی آنکھیں کھل رہی ہیں؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS