اپنی 77ویں بہار دیکھ رہے آزاد ہندوستان میں یہ عام انتخابات نئی رنگت لئے ہوگا۔ ایسا پہلی بار ہوگا جب دووزرائے اعلیٰ ،ایک نائب وزیراعلیٰ، ایم پی اوروزیر بدعنوانی کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ علاوہ ازیں درجنوں ایسے لوگ بھی ہیں جو یاتو جیل کاٹ چکے ہیں یا جانے کی تیار ی میں ہیں۔ یہ بدعنوانی کے خلاف وزیراعظم نریندرمودی کی وعدہ شدہ پالیسی کانتیجہ ہے یا پھر حزب اختلاف کو کمزور کرنے کی حکمت عملی ہے ؟ نوٹ بندی ، جی ایس ٹی ،بیروزگاری اورمہنگائی پر حکومت کو گھیرا جاتارہاہے۔ بیرونی ممالک کے ذرائع سے اڈانی کی بدعنوانی کا انکشاف توہوا، لیکن ملک کے اندر مرکزی حکمراں جماعت نے اس صنعتکار کے خلاف کسی طرح کی جانچ کرانے سے پرہیز کیا۔ گودی میڈیا نے بھی حکومت کی ہراس خبر کو غائب کرنے کی کوشش کی جس سے بی جے پی کی بدنامی ہو لیکن اب انتخابی عطیہ سے متعلق قانون کو جب عدالت عظمیٰ نے غیرآئینی قرار دے دیا تب آہستہ آہستہ حکمراں جماعت کے عیوب عوام کے سامنے ظاہر ہونے لگے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے انتخابی بانڈس کی اطلاعات چھپانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن عدالت عظمیٰ کے سخت رویہ کے سبب اسے الیکشن کمیشن کو ساری معلومات فراہم کرنی پڑی۔ نتیجتاً بی جے پی اورخصوصاً وزیراعظم نریندرمودی پوری طرح سے بے نقاب ہوگئے۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ اس کے ذریعہ عام آدمی تک کچھ کچھ خبریں چھن کر آنے لگیں ورنہ عوام ان خبروں سے بھی بے خبر رہتے۔
عوام کا ذہن اہم ایشوز سے بھٹکانے کیلئے حکومت نے ای ڈی کے ذریعہ کجریوال کو گرفتار کرایا۔ اگرای ڈی اور دیگر سرکاری ایجنسیاں ایمانداری اور غیرجانبدار ہوتیں توآج بی جے پی کے قدآورلیڈران بھی جیل میں ہوتے کیونکہ ان لوگوں کے خلاف انتخابی بانڈس سے متعلق بدعنوانی کے سارے ثبوت عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے ذریعہ فراہم کردئیے ہیں۔ اب ساری امیدیں ملک کی عدلیہ پر ٹکی ہوئی ہیں۔اب اسی شروعاتی سوال کہ ان گرفتاریوں کا مقصد بدعنوانی پر نکیل کسناہے یا حزب اختلاف کو کمزور کرناہے، کا جواب آسانی سے دیا جاسکتا ہے۔ ان ساری مشقوں کامقصد حزب اختلاف کو کمزور کرکے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرناہے۔ اگرعام آدمی پارٹی کا تاریخی تجزیہ کیاجائے تو پتہ چلے گاکہ گزشتہ دہائی کے ابتدائی برسوں میں اروند کجریوال سچائی کے جنگجو کے طور پر ابھرے تھے۔ انہوں نے انڈین رینویو سروسز کی ملازمت چھوڑ کر این جی او اورآرٹی آئی کے ذریعہ آس پاس بکھری برائیوں سے جوجھنے کا عہد کیاتھا۔ انّاکی تحریک نے انہیں نئے مواقع اورنئی بلندیاں عطاکی تھیں۔ وہ ان کے پلیٹ فارم سے جب اپنی ہلکی آواز میں گاتے ، ’انسان کا انسان سے ہو بھائی چارہ یہی پیغام ہمارا‘ تب سیاسی بدعنوانی اوربدسلوکی سے اوبے ہوئے لوگ ان سے بیحد متاثر ہوتے۔ ان دنوں وہ اوران کے ساتھی کہتے تھے کہ ’ہمیں سیاست سے مطلب نہیں ہے ، ہم تو صرف سچائی ،بھائی چارہ اورانصاف کیلئے جدوجہد کررہے ہیں‘لیکن ان کے مداح اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب کجریوال نے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کرڈالا۔پھربھی لوگوں نے سوچا کہ یہ پارٹی دیگر پارٹیوں سے بہتر ہوگی اور جیساکہ دہلی اورپنجاب میں دیکھاگیا کہ عوام نے الیکشن میں اس کی پرزور حمایت کی۔ کجریوال نے دلیل دی کی سیاست کے سمندرمیں اترے بنا اسے صاف کرنا ممکن نہیں۔ سیاست کی شروعات بھی انہوں نے غیرروایتی طریقے سے کی۔ وہ کبھی آٹورکشہ والوں کے بیچ جابیٹھتے ، توکبھی محنت کشوں کے کسی اورطبقہ کی جانب رخ کرلیتے ،حالانکہ پہلے انتخاب کے بعد اقتدار کیلئے انہوں نے اس کانگریس کا سہارا لیا جس پروہ کل تک بدعنوانی کا بیحد سخت الزام لگاتے تھے۔ عام آدمی پارٹی موجودہ چنا ؤبھی کانگریس کے ساتھ ملکر لڑنے جارہی تھی۔ اس بیچ ان کے کچھ پرانے ساتھی ان کے طریقہ کار سے ناراض بھی ہوئے۔ کئی شروعاتی ساتھیوں نے یاتو پارٹی چھوڑ دی یا وہ باہر کردئے گئے لیکن کجریوال اپنے راستے پر بڑھتے رہے۔ ان میں کمزور اور نیچے متوسط طبقے کے رائے دہندگان کو سمجھنے کی بے مثال صلاحیت ہے۔ بجلی اورپانی کے بلوں میں رعایت دے کر عام آدمی پارٹی نے دہلی کے رائے دہندگان کا دل جیت لیا۔ انہوں نے تعلیم اورصحت کے شعبہ میں بھی بہتر کام کیا۔ دہلی کے عوام نے بھی لگاتار دوانتخابات میں زبردست اکثریت سے انہیں فتحیاب کروایا۔ انہوں نے پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی اورگجرات ودھان سبھا کے انتخابات میں 12.92فیصد ووٹ پاکر قومی سیاسی جماعت کا درجہ بھی حاصل کرلیا۔
کجریوال جس آبکاری دھاندلی میں گرفتار کئے گئے ہیں وہ بھی تعجب خیز ہے۔ انہوںنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک بے مثال آبکاری پالیسی مرتب کی تھی۔ اس کے تحت دہلی میں انگریزی شراب بیحد سستی ہوگئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف نتیش کمار بہار میں شراب بندی کی پالیسی اپناکر حکومت بچارہے تھے تودوسری طرف کجریوال دہلی میں شراب کی قیمت کم کرکے مقبولیت حاصل کررہے تھے۔ بہرحال بہار اوردہلی کے حالات مختلف ہیں۔ کجریوال کا یہ قدم قابل تنقید نہیں ہے۔ ویسے تو کجریوال کے کئی ساتھی پہلے سے ہی جیل میں ہیں لیکن ان کی گرفتاری کی، ہوسکتاہے مودی جی کو بڑی قیمت اداکرنی پڑے۔ عام آدمی پارٹی کادعویٰ ہے کہ ان کے لیڈران کو کوئی ’منی ٹریل‘ نہ ملنے کے باوجود جیل بھیجاگیا اورانہیں اب تک عدالتوں سے کوئی راحت نہیں ملی۔ جبکہ انتخابی بانڈس معاملے میں بی جے پی کی دھاندلی ثابت ہوچکی ہے اوراس لحاظ سے پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا کو بھی گرفتار کیاجاناچاہیے۔ چونکہ مودی حکومت نے یہ پالیسی بنائی ہے اس لئے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خود مودی جی کو بھی مستعفی ہوجانا چاہیے۔ ای ڈی کا امتیازی رویہ بھی پوری طرح سے بے نقاب ہوگیاہے۔ دراصل لوک سبھا الیکشن 2024 میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے مودی جی کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ ان کا مقصد حزب اختلاف کا ملک سے صفایا کرتے ہوئے ایک ایسا جماعتی نظام قائم کرناہے تاکہ سوال کرنے والا کوئی باقی نہ رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح روس،چین،شمالی کوریا کے تانا شاہ کے پاس ناقابل تسخیر طاقت موجود ہے ویسی ہی پوزیشن وہ حاصل کرلیں اورمستقبل قریب میں انہیں الیکشن نہ کرانا پڑے ۔ حزب اختلاف کے لیڈران کی گرفتاری اورملک کی سب سے اہم اورپرانی پارٹی کے کھاتے کو عام انتخابات سے ٹھیک پہلے منجمد کروانا سیاسی انتقام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ دراصل قانون، عدلیہ ،آئین اورجمہوریت کو پامال کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اگرحزب اختلاف مودی کی مذموم حرکتوں کی اطلاع عوام تک پہنچانے تک کامیاب ہوجاتی ہے تو 2024کے عام انتخابات کے نتائج یقینا چوکانے والے ہوں گے۔٭٭٭
حزب اختلاف کے لیڈروں کی گرفتاری اور عام انتخابات : پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS