لکھنئو: الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز مدرسہ ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ کورٹ نے کہا کہ سیکولرازم ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے، اس لیے مدرسہ ایکٹ 2004 سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ کورٹ کے اس حکم کے بعد یوپی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نے کہا کہ اسے سرپم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
ریاست میں بڑی تعداد میں مدارس ہیں اور ان میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد بھی کافی ہے۔ ایسے میں عدالت نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ مدارس کے ان طلباء کو پرائمری ایجوکیشن بورڈ اور ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن بورڈ کے تحت تسلیم شدہ اسکولوں میں شامل کیا جائے۔
ریاستی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ ضرورت کے مطابق اسکولوں میں اضافی سیٹیں بنائیں اور اگر مزید ضرورت پڑی تو نئے اسکول قائم کیے جائیں۔
دوسری طرف، مدرسہ بورڈ کے رجسٹرار پرینکا اوستھی نے کہا کہ تفصیلی جانکاری کا انتظار ہے۔ اس کے بعد آگے کا فیصلہ لیا جائے گا۔
وہیں، یوپی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید نے کہا کہ کورٹ کے حکم کا جائزہ لیا جائے گا۔ اور وکیلوں کی ٹیم تیار کی جائے گی۔ دو لاکھ بچوں کے مستقبل کا سوال ہے، روزگار بھی جائے گا، اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کیجریوال کی گرفتاری دہلی کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہے: کیجریوال کی اہلیہ
الہ آباد ہائی کورٹ نے یاستی حکومت سے کہا ہے کہ 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو اندراج کے بغیر نہ چھوڑا جائے، اس لیے انہیں اسکول میں شامل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ یہ فیصلہ جسٹس سبھاش ودیارتھی اور جسٹس وویک چودھری کی بنچ نے دیا ہے۔