پروفیسرعتیق احمدفاروقی
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پناہ گزین آتے رہے ہیں۔ 1947 میں تقسیم کے وقت میں ہی لاکھوں لوگ سرحد پارکرکے یہاں آئے تھے۔ کچھ اسی طرح کی تصویر اس وقت کے مشرقی پاکستان میں آزادی کی لڑائی کے دوران بھی دکھی تھی جب وہاں (اب بنگلہ دیش) سے ہزاروں لوگ ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کا کنونشن کہتاہے کہ پناہ گزین کوکسی بھی ملک میں آنے سے نہیں روکاجانا چاہیے اور یہ اس ملک کی عقل پر منحصر ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنا شہری بنائے یانہیں مگرہندوستان نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ ہمارا نظریہ یہ رہاہے کہ پہلے تقسیم کا سانحہ جھیل رہے لوگوںکو بسایہ جائے، پھر ان پناہ گزینوں کے بارے میں سوچاجائے گا ۔ اسی سبب انہیں شہریت دینے کی ایک عملی پالیسی مرتب کی گئی اورکوئی قانون نہیں بنایاگیا۔
یہ حالات سال 2019 تک رہے جب تک کہ سی اے اے کو پارلیمنٹ سے پاس نہیں کیاگیا تھا۔اب اسے نوٹیفائی بھی کردیاگیاہے جس کے بعد پورے ملک میں یہ قانون نافذ ہوگیاہے۔ اس ترمیم شدہ قانون کے مطابق پاکستان ،بنگلہ دیش اورافغانستان سے آنے والے غیرمسلم اقلیتوں (ہندو،سکھ،جین ،پارسی اور عیسائی) کو ہندوستانی شہریت دی جاسکتی ہے۔ اس کی شرط یہ ہوگی کہ وہ 31دسمبر 2014ء تک ہندوستان میں آچکے ہوں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پاکستان، افغانستان اوربنگلہ دیش مسلم اکثریتی ملک ہیں اوروہاں غیرمسلموں کو مذہب کی بنیاد پرستا یا جاتاہے۔ اب ان ممالک سے ہندوستان آئے لوگوں کو راحت مل سکے گی۔ دراصل ان ممالک سے بھاگ کر آئے پناہ گزین برسوں سے ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس کوئی قانونی دستاویز نہیں ہے اس لئے قانوناً یہ گھس پیٹھی یا پناہ گزین ہی مانے گئے ہیں۔
ملک کا موجودہ قانون ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتاتھا کیونکہ انہیں شہریت دینے کا التزام نہیں تھا۔ ہندوستان کاآئین انہیں لوگوں کو شہر یت کا حقدار مانتاہے،جو ملک میں آئین کے نفاذ کے وقت (26جنوری 1950) ہندوستان کے دائرۂ اختیار میں رہ رہے تھے اور ایک ، جو ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں اوردو، جن کے والدین میں سے کوئی ایک ہندوستان کا شہری رہاہے۔ ان کے علاوہ بھی کچھ التزامات ہیں لیکن خصوصاً انہی دوالتزامات کو توجہ ملتی ہے۔ لہٰذا پڑوسی ممالک سے آئے پناہ گزینوں کو شہری بنانے کا مطالبہ عرصہ سے کیاجارہاتھا، حالانکہ 2019 میں سی اے اے کے پاس ہوجانے کے بعدبھی اس کانفاذ نہیں ہوپایاتھا کیونکہ ایک تو پورے ملک میں ا س کے خلا ف احتجاج ومظاہرے شروع ہوگئے تھے اوردوسرے مرکزی حکمراں جماعت کو اسے نافذ کرنے کی کوئی فوری سیاسی ضرورت بھی نہیں تھی۔ نتیجتاً اسے نوٹیفائی کرنے میں چار سال کا وقت لگ گیا۔
ان معاملات کا تنقیدی جائزہ اگرلیاجائے توپتہ چلے گا کہ اس میں آئینی نظریہ سے کچھ کمیاں ہیں۔ اس میں دراصل مذہب کو شہریت کی بنیاد بنائی گئی ہے جبکہ آئین کے حصہ دومیں جس میں شہریت کا ذکر ہے مذہب شامل نہیں ہے۔ نقاد اسی بنیاد پر سی اے اے کو آئین کی بنیادی روح کے خلاف بتارہے ہیں اوراس کی آئینی حیثیت کو لے کر عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹایاگیا ہے جہاں اب تک سماعت کا انتظار ہورہاہے۔ کسی پناہ گزین کو شہریت دینے میں شاید ہی کسی کو اعتراض ہو۔ احتجاج کا سبب ان میںمذہب کی بنیاد پر کی گئی تقسیم ہے۔ یہ بھی سوال اٹھایاجارہاہے کہ مبینہ پڑوسی ممالک میں کیا صرف اقلیتوں کو ہی ستایاجارہاہے، وہاں پر مسلمانوں پر ظلم نہیں ہورہاہے ؟ مثال کے طور پرپڑوسی ممالک میں احمدیہ فرقہ کی حالت بھی بہت اچھی نہیں ہے۔ کیا ان کو محض اس لئے شہریت نہیں ملنی چاہیے کیونکہ وہ مسلمان ہیں ؟ سی اے اے کے تئیں شبہات کا ایک سبب نیشنل رجسٹریشن فارسٹیزن شب (این آرسی ) بھی ہے۔ یہ متنازعہ اس لئے بن گیاہے کیونکہ 2003 میں جس ترمیم کے ذریعہ اسے مجاز کیاگیا، اس میں یہ واضح طور پر کہاگیاہے کہ ہرہندوستانی کانام اس رجسٹرمیں ہوناچاہیے۔ اصولی طور پر اس میں کوئی دقت نہیں ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے مگراس کے عمل درآمد میں کچھ عملی دقتیں ہیں، جیسے اس میں مقامی ایڈمنسٹریشن کو رجسٹرمیں نام درج کرانے کیلئے مجاز کیاگیاہے۔ وہ چاہیں تو کسی کا نام اس میں درج کرسکتاہے اورکسی کا بھی نام کاٹ سکتاہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ایڈمنسٹریٹیو ڈھانچے میں کافی تعداد میں بدعنوان، فرقہ پرست اورجانب دار لوگ داخل ہوگئے ہیں۔ اسی سبب ہندوستان کے مسلمانوں میں تمام طرح کے شکوک ہیں اوروہ خوفزدہ بھی ہیں۔ ان کو خوف ہے کہ ان کا نام اس میں سے جبراً ہٹایاجاسکتاہے۔ حالانکہ احتجاج کے بعد این آرسی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیاگیاہے لیکن سی اے اے کے نافذ ہونے کے بعد سے یہ ڈرپھرسے سراٹھاتا نظر آرہا ہے۔ کہاجارہاہے کہ صرف ستائے جانے کے سبب ہی نہیں کئی بار اچھے موقع کی تلاش میں بھی پڑوسی ممالک سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ ایسے میں وہاں سے آئے مسلمانوں کو اب تفریق کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔
آخر اس کا حل کیاہے ؟مناسب تویہی ہے کہ ایسے کسی تنازعہ کو سلجھانے کے لیے پہلے سبھی فریقوں کو اعتماد میں لیاجائے۔ وہ ان کے بنیادی مسئلوں کو سنے اوران کے شک و شبہات دورکرے۔ اس کا ایسا حل نکالناچاہیے کہ کسی پناہ گزین کو ہندوستان میں ذلیل نہ ہونا پڑے جو حکومت کی حکمت عملی ہے اس کے مطابق ہندو پنازہ گزین کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صرف یہ کہہ دینے سے وہ مسلمان نہیں ہے ، ان کو شہریت نہیں مل جائے گی جیسا کہ وزیرداخلہ چند براداران وطن کو سمجھارہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ ان ہندوؤں یا غیرمسلم لوگوں کو دوباتوں کا ثبوت دینا پڑے گا ۔ ایک تو یہ کہ وہ پڑوسی ملک کے شہری تھی اوردوسرے انہیں وہاں ستایاجارہاتھا، اوریہ دونوں چیزیں مشکل ہیں۔ آج ملک میں پناہ گزینوں کی کئی نسلیں موجودہیں۔ ان کی فکروں کا تصفیہ ضروری ہے۔ ویسے قانونی التزامات کے مطابق ، عام انتخابات کے بعد نئی حکومت اسے واپس بھی لے سکتی ہے۔دیکھاجائے تو ہندوستان میں پناہ گزینوں کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے اسپیشل قانون کا ہونا ضروری ہے۔ یہ تو ہرکوئی چاہتاہے ، مگر انسانی مدد کی ضرورت ہرپناہ گزین کو ہے۔ اب تک ہماری پالیسی واضح طور پر یہی رہی ہے کہ ہم پناہ گزینوں کو بیشک پناہ دیں گے۔ لیکن یہ امید بھی کرتے ہیں کہ حالات سدھرنے پر وہ خود ہی اپنے ملک واپس لوٹ جائیں گے ۔ وہ مستقل طو ر پر یہاں رہائش نہ اختیار کریں تو بہتر ہے کیونکہ ہمیں اپنی ہی بڑی آبادی کو سنبھالنے میں دقتیں پیش آتی رہی ہیں۔ اس لئے ہندوستانی آئین میں شہریت دینے کے محدود انتظام رکھے گئے تھے۔ اب اس کو وسیع بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے وہ بھی کئی سوالوں میں گھرتا دکھ رہاہے۔ ہم خلوص نیت سے پنازہ گزین کی مددکرناچاہتے ہیںیاالیکشن میں فائدہ اٹھانے کیلئے معاشرے کو پولرائز کرنے کیلئے ایسا کررہے ہیں۔
[email protected]
شہریت ترمیمی قانون سوالات کے گھیرے میں : پروفیسر عتیق احمد فاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS