ڈاکٹرمصباح احمد صدیقی
میدان شاعری میں سرزمین امروہہ کے شعری افق کا سب سے اہم، منفرد، نمایاں اور معتبر نام جناب کفیل احمد صدیقی مرحوم متخلص بہ کفیل آزر کا ہے جن کی شاعری تمام فنی خوبیوں سے سجی دل کو چھو لینے والی ہے۔ بلاشبہ کفیل آزر ایک فطری اور وہبی شاعری کے مردِ میدان تھے۔ آپ کو ان کے شعری سرمایہ میں ایک وقار ملے گا، عشق کا پاکیزہ جذبہ ملے گا۔ سوز و گداز آہ و فغاں، گریہ وزاری، محبوب سے راز و نیاز کی گفتگو، آہ اور واہ یعنی ہر جگہ ایک وقار، تہذیب و شائستگی غنائیت وغیرہ یعنی شاعری کے تمام رموز و نکات اور خوبیاں قواعد و ضوابط کے ساتھ۔
کفیل آزر کا ہر شعر، از دل خیز و بر دل ریزد، کی مثال ہے بلکہ میں تو یوں کہوںگا کہ کفیل آزر کی شاعری تفنن طبع کی شاعری نہیں ہے، ایک دکھی دل اور دردمند انسان کے دل کی آواز ہے۔
کفیل آزر کی پیدائش ایک متوسط ذی علم اور دینی گھرانے میں 23؍اپریل 1940ء کو ہوئی مگر افسوس آٹھ برس کی طفلانہ عمر میں کفیل آزر سایۂ پدری سے محروم ہوگئے تو آلام و مصائب کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تعلیم کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا اگرچہ انھوںنے جیسے تیسے مڈل کے بعد ادیب،کامل اور منشی (فارسی) کے امتحانات پاس کر لیے۔ بے روزگاری اور فاقہ مستی نے امروہہ سے میرٹھ، میرٹھ سے دہلی اور دہلی سے عروس البلاد ممبئی جیسی صنعت و حرفت کی جگہوں نے بھی نہ صرف آلام روزگار سے تنگ رکھا بلکہ در در کی ٹھوکریں کھلائیں ۔
بہرحال کفیل آزر کی یہ دردبھری داستان بہت طویل ہے اس کا احاطہ صرف ان کے کسی سوانحی مضمون میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ کفیل آزر کی حیات مستعار کا ایک اہم ترین جزو یہ بھی تھا کہ آپ کی بے پناہ خوددار اور حساس طبیعت نے انھیں کہیں بھی نہ ہاتھ پھیلانے دیا اور نا ہی نظریں جھکنے دیں ۔ دہلی جیسی خوبصورت انڈسٹریل بلکہ ہندوستان کی راجدھانی میں نوکری کی تلاش میں دن اور رات شاہجہان جیسے مخیر بادشاہِ ہند کی تعمیر کردہ جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کچھ رات سوکر اور زیادہ رات جاگ کر بیڑیوں کے کشوں سے دل جلاکر گزرتی تھی۔
کفیل آزر ایک پیدائشی وہبی اور خداداد صلاحیتوں سے متصف شاعر تھے۔ انھوںنے دس برس کی بالی عمریا میں ہی شعر موزوں کرنے شروع کر دئیے تھے۔وہ اس سلسلے میں خود ہی رقم طراز ہیں:
میرے خاندان کی رسمیں نہ انگریزی بال رکھنے کی اجازت دیتی تھیں، نہ پتلوں پہنے کی صرف نمازیں پڑھوائی جاتی تھیں اور روزے رکھوائے جاتے تھے، نہ جانے اس کٹر ماحول میں کیسے دس سال کی عمر میں مجھے شاعری کا شوق پیدا ہو گیا اور میں ایک مقامی شاعر حبیب احمد عارف کے پاس بیٹھنے لگا، کچھ الٹے سیدھے شعر بھی موزوں کر لیا کرتا تھا۔
مجھے اپنے بچپن کے دو شعر یاد ہیں
اس نے پھر سے نظر اٹھائی ہے
جذبہ دل تری دہائی ہے
مجھ کو اپنے بھی دے گئے دھوکہ
آج دنیا سمجھ میں آئی ہے
ان چار مصرعوں میں بھی بھرپور شعری صلاحیت اور برجستگی ہے۔ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آرہے ہیں۔
بس یہی کفیل آزر کی شاعری کی بنیاد تھی، اس بات کو آپ نے بڑے ہی واضح انداز میں آگے یوں بیان کیا ہے:
میری شاعری مطالعہ اور علم کی شاعری نہیں ہے، یہ خالص مشاہداتی، تجرباتی اور وارداتی شاعری ہے بقول ساحر
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
اﷲ رب العزت نے اگرچہ کفیل آزر کو آسائش زندگی سے محروم رکھا تھا مگر شاعرانہ فنی بصیرتوں سے بغیرِ حساب نوازا تھا۔ الشعراؤ تلامیذالرحمن فقرے کی حقانیت پر کفیل آزر کے کلام کو دیکھ کر ہی یقین آتا ہے۔چلئے کفیل آزر کی مصائب و آلام، کلفتوں، الجھنوں اور فاقہ کشی اور ان کی زیست کے تاریک ترین دور سے بچ کر ان کی شاعرانہ عظمتوں نثری صلاحیتوں اور اردو زبان و ادب پر ان کی مہارتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ خالقِ کائنات اپنی اشرف مخلوق کو کندن بنانے کے لیے کبھی کبھی امتحان لیتا ہے جس امتحان میں کفیل آزر صدفی صد کامیاب و کامران ہوئے تھے۔ تو پھر اﷲ تعالیٰ نے ان کا ہاتھ پکڑ ا اور کفیل آزرنے کیف بھوپالی، شکیل بدایونی اور کیفی اعظمی کے مقابلہ پر فلموں میں گانے، گیت اور مکالمہ لکھنے شروع کیے اور 1954ء میں آپ کی ایک بے مثال و لازوال نظم ’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘ فلمی ماہ نامہ ’’شمع‘‘ میں شائع ہوئی اور اس لاجواب نظم کو مشہور گلو کار جگجیت سنگھ نے اپنی مسحور کن آواز میں گاکر کفیل آزر کو گمنامی کے غار سے نکال کر اجالوں کی کہکشاں میں لاکھڑا کیا۔ پھر کیا تھا 1971ء میں آپ کو لائف اینڈ آرٹ ممبئی کی فلم ’’ارادہ‘‘ میں گانے لکھنے کا موقع مل گیا۔ اس کے بعد آپ نے پے در پے کئی مشہور و معروف فلموں میں گیت لکھے، کفیل آزر نے تقریباً 45فلموں میں گیت اور گانے لکھے اور بعض فلموں میں مکالمے بھی لکھے ہیں۔ نمونہ کے طور پر آپ کی بصیرت افروز سماعتوں کی نذر ایک گانا پیش ہے، ملاحظہ کیجیے کفیل آزر کی شاعری کا جمال و کمال، الفاظ کا دروبست سوز و ساز غنائیت، نغمہ اور راگنی کا اتار چڑھاؤ دیکھئے اور پوری طرح محظوظ و مسرور ہوجائے۔
دوری نہ رہے کوئی، آج اتنے قریب آؤ
میں تم میں سما جاؤں، تم مجھ میں سما جاؤ
سانسوں کی حرارت سے تنہائی پگھل جائے
جلتے ہوئے ہونٹوں کا ارمان نکل جائے
چاہت کی گھٹا بن کر یوں مجھ پہ برس جاؤ
میں تم میں سما جاؤں، تم مجھ میں سما جاؤ
یہ بات نہ تھی اب سے پہلے، کبھی جینے میں
دل بن کے دھڑکتے ہو تم ہی مرے سینے میں
کبھی ساتھ نہ چھوڑوگے تم میری قسم کھاؤ
میں تم میں سما جاؤں، تم مجھ میں سما جاؤ
کفیل آزر کے شعری سرمایہ میں پوشیدہ تخلیق کی صداقت، مضبوط و توانا جذبات سے لبریز خوش بو بکھیرتی اور عالمانہ و مفکرانہ بصیرتوں سے بھری ہوئی شاعری وہ چاہے گانے ہوں، گیت ہوں، آزاد نظمیں ہوںیا تغزل اور فکر و آگہی سے سنواری ہوئی غزلیات ہوں، سبھی میں با مقصد، حساس تخلیقیت پائی جاتی ہے اور یہی تمام خوبیاں کفیل آزر کی شعری کائنات کا وہ لازوال سرمایہ بن گئی ہیں جس سے زمانہ کے سردو گرم موسم دور دور رہتے ہیں یعنی کفیل آزر ہر وقت ، ہر موسم اور ہر زمانہ کے شاعر ہیں۔ کفیل آزر کا درد و کرب اور حساسیت سے بھرا لب و لہجہ دیکھئے۔
کب آؤگے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا
یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں
اور بطور خاص یہ شعر
اس کا ہر خط میں اگر کوئی تقاضا ہے تو یہ
ایک ہی دن کیوں نہ ہو، لیکن کبھی گھر، کاٹنا
جناب جون ایلیا نے کفیل آزر کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی بطور خاص تحریر کیا ہے ۔
’’کفیل آزر اپنے لڑکپن اور نوجوانی میں زندگی کے جن سفاک ترین تجربات سے گزرے ہیں، ان کی شاعری انھیں سفاک ترین تجربات کے عذاب کی شاگردِ رشید ہے۔‘‘
(کفیل آزر فن و شخصیت، ص:36-37)
اورکفیل آزر کی خوبصورت غزل کا شعر انھوںنے نمونہ کے طور پر نقل کیا ہے جس میں ایک سوز ہے، تڑپ ہے، ایک سرد آہ ہے اور کرم واہ بھی ہے، شعر دیکھیں:
نہ آتش لب و عارض، نہ انتظار کی دھوپ
جلا رہی ہے ہمیں صرف روزگار کی دھوپ
استاد گرامی محترم پروفیسر نثار احمد فاروقی کفیل آزر کی شاعرانہ عظمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کفیل آزر نے غزلیں بھی لکھی ہیں، نظمیں اور قطعات بھی، ہائیکو کے انداز کی مختصر نظمیں بھی، ان میں سے ہر صنف میں وہ پختہ کار نظر آتے ہیں اور یہ کہنا دشوار ہوگا کہ وہ اچھی غزل کہتے ہیں یا نظم‘‘ (کفیل آزر فن و شخصیت، ص:41)
اسی طرح سرزمین امروہہ کے ایک مشہور نقاد محترم پروفیسر شریف احمد صاحب نے اپنے تاثرات میں کیا ہی پتے کی باتیں لکھی ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
’’میں بے حد وثوق اور یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ بٹوارے کے بعد گزشتہ 25؍سال سے امروہہ کی نمائندگی ہندوستان سے بحیثیت شاعر کفیل آزر کر رہے ہیں، ان کی بھرپور نظم جو بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔‘‘ جس نے غزل گلو کاروں کو جگجیت سنگھ جیساگلوکار دیا۔ دنیا کے ہر اس ملک میں جہاں اردو بولی اور سمجھی اور پڑھی جاتی ہے (وہاں) کفیل آزر کا نام موجود ہے۔ جگجیت نے اسی نظم سے اپنا کیریر شروع کیا تھا اور 22؍سال گزر جانے کے باوجود وہ اس نظم کے مقابلے میں کوئی اور تخلیق پیش نہیں کر سکے۔‘‘
(کفیل آزر فن و شخصیت، ص:46)
کفیل آزر کی مکمل زندگی اگرچہ رنج و غم اور مصائب زیست سے عبارت ہے، ظاہر ہے کہ ان کی شاعری یا نثری تخلیقات میں اس کا واضح اثر ہونا کوئی برائی کی بات نہ ہوتی، مگر انھوںنے غم و اندوہ کو بھی ایک وقار بخشا ہے اور مکمل سنجیدگی و فکری مزاج کے ساتھ اس کو اشعار کے قالب میں سمویا ہے۔ دیکھئے وہ کیا حوصلہ مندی کا سبق دیتے ہیں۔
شکستہ خوابوں کے ٹکڑے سجا کے پلکوں پر
ہر ایک زخم شناسائی کو ہرا رکھنا
اردو شاعری میں خواب کا استعارہ خوب خوب استعمال ہوا ہے اور خواب دیکھنا اور دکھانا ایک قدیم روایت ہے مگر کفیل آزر نے لفظ خواب کو جو جدت و توانائی اور معنیٰ آفرینی عطا فرمائی ہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔ انھوںنے اپنے بہت سے اشعار میں خواب لفظ کا الگ الگ انداز میں کیا ہی خوب اور لطیف استعمال کیا ہے جو اپنی اپنی جگہ آہ اور واہ کی بہترین مثالیں ہے دیکھیے چند خواب کے خوبصورت استعمال
اذیتوں کی مکمل کتاب دے جاتا
وہ میری جاگتی آنکھوں کو خواب دے جاتا
یہ کوئی بات نہ تھی اگر کفیل آزر تمام عمر اسی طرح کی شاعری کرتے کہ
مجھ سے مرے ماضی کا پتا پوچھنے والو
پگھلا ہوا سیسا مرے کانوں میں نہ ڈالو
کفیل آزر صاحب کے ایک مبصر معروف نقاد شری کالی داس گپتا رضا نے آپ کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’کفیل آزر کے یہاں ناکامیوں کا شکوہ اور ماضی کی آسودگیوں کا تذکرہ زیادہ ہے البتہ وہ اسے جس پیرائے میں بیان کرتے ہیں وہ بڑا دل آویز ہے، مشاق اور حساس شاعر ہیں زبان و بیان پر انھیں پورا قابو ہے۔‘‘
شری کالی داس گپتا رضا کی یہ باتیں بجا طور پر درست ہیں مگر کفیل آزر کی مکمل شاعری کو یا زیادہ تر یاس و حرماں کی شاعری نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے یہاں خالص غزل کے بھی بہت خوب صورت اشعار موجود ہیں جن میں ایک حوصلہ ہے، ایک سبق ہے، بلند ہمتی اور تاریک ماضی کو بھول کر روشن مستقبل کو تلاشنے کا راستہ ہے۔اس قبیل کے چند ایک شعر دیکھیں:
یہ الگ بات ہے تعبیر ملے نہ ملے
خواب امید کے پلکوں پہ سجاتے رہیے
مستقبل سے آس بہت ہے مستقبل کیسا بھی ہو
ماضی کس کے کام آیا ہے ماضی کو دہرائیں کیوں
اس حوصلہ کی کوئی ذرا سی تو داد دے
سجدے میں جو کٹا تھا وہ سر ہے ہماری ذات
مدتوں کے بعد ان کی یاد آئی ہے مجھے
اب تو تنہائی کا موسم بھی مزا دے جائے گا
اس شعر پر تو بے ساختہ حکیم مومن خاں مومن کا وہ شعر یاد آجاتا ہے جس پر غالب نے کہا تھا ’’مومن اپنا یہ شعر مجھے دے دیں اور میرا پورا دیوان لے لیں۔‘‘ شعر ملاحظہ ہو
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
’’اب تنہائی کا موسم بھی مزا دے جائے گا‘‘ میں کفیل آزر نے مومن سے آگے بڑھ کر بات کہی ہے۔ مومن کا محبوب تنہائی میں ان کے پاس ہوتا ہے۔ کفیل آزر کو یہ موقع بھی نصیب نہیں، صرف اس کی یاد آئی ہے۔ اب تغزل سے بھرا لب و لہجہ بھی ملاحظہ کرتے چلیں:
کفیل آزر نے غزل کو اپنے ذاتی درد و غم اور رنج و الم سے وہ مخصوص شعری آہنگ اور خوبصورت پہچان عطا کی جو بلاشبہ بس انھیں کا حصہ ہے۔ کفیل آزر نے غزل کو بنانے، سنوارنے اور نکھارنے کی کوشش میں لفظوں کے موتی بکھیرے ہیں، وہ اپنی غزل میں اپنے واقعات، حالاتِ زندگی کو اس طرح سمو دیتے ہیں کہ ہمیں اکثر جگہ وہ آب بیتی ہی بلکہ جگ بیتی لگتے ہیں اور اسی فن کاری کو ان کا درد بھرا لب و لہجہ ان کے شعروں میں چارچاند لگاتا ہے۔ ملاحظہ ہو ان کا درد بھرا لہجہ:
کسی نے جھوٹ بولا ہے یہ آزر
چلو موسم سہانا ہو گیا ہے
کفیل آزر دنیا کے آلام و مصائب جھیلتے جھیلتے اب اس موڑ پر آپہنچے ہیں کہ ان کا سچائی سے بھروسہ ہی اٹھ گیا ہے۔کفیل آزر کو نثر لکھنے پر بھی کامل دسترس حاصل تھی۔ وہ شعری گتھیوں کے بڑے نباض ہونے کے ساتھ ہی ایک اچھے نقاد بھی تھے۔ انھوںنے اردو اکادمی دہلی سے مالی تعاون سے منظور ہونے والی تقریباً 42؍کتب پر تبصرے لکھے۔ آپ نے تقریباً 45؍فلموں میں گیت، گانے اور مکالمہ لکھے۔ آپ کے دو شعری مجموعے ’’دھوپ کا دریچہ ‘‘ (مطبوعہ 1983ء) اور ’’آسمان خوابوں کا‘‘ (مطبوعہ 2000ء) منظر عام پر آچکے ہیں اور شعری میدان میں خاصے مقبول بھی ہوئے ہیں۔ یعنی عوام و خواص سے قبولیت کی سندِ مستند حاصل کر چکے ہیں۔ افسوس کہ 28؍نومبر 2003ء کو سرزمین امروہہ کا یہ تابندہ ستارہ بھی ابدی نیند سو گیا۔ جناب مرزا افسر حسن بیگ افسر امروہوی نے مندرجہ مادہ تاریخ بر آمد کیا۔
’’کفیل آزر کا غم ہے‘‘ اور سرزمین امروہہ کے نامور تاریخ گو جناب عبدالشکور کوثر صدیقی امروہوی نے تین قطعات تاریخ کے لکھے ہیں جس میں پہلا قطعہ ملاحظہ ہو:
اردو دنیا کو پھر ہوا صدمہ
چل بسے محترم کفیل آذر
آہ نکلی تو سال فوت ملا
مر گئے محترم کفیل آذر
72010-7=2003
یہاں یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ کوثر امروہوی نے اپنے قطعۂ تاریخ میں کفیل آزر کا تخلص ’ذ‘ سے آذر استعمال کیا ہے۔ جب کہ کفیل آزر اپنے تخلص آزر میں ہمیشہ ’ز‘ استعمال کرتے تھے۔ آزر اور آذر کے صحیح تلفظ میں اہل اردو کا اختلاف ہے جس کی بحث یہاں مناسب نہیں۔