دھوارکھا شری رام
پچھلے دہائی میں ہندوستان میں عورتوں کی کام کاج میں شراکت داری کی شرح (ڈبلیو ایل ایف پی آر)کو بڑھانے کی سمت میں کافی اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ورک فورس میں عورتوں او ر خاص طور پر لڑکیوں کی شراکت داری بڑھانے اوران میں تبدیلیاں لانے کی قوت اور صلاحیت بہت زیادہ ہے جو نہ صرف اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی وعدہ کی کرتی ہے بلکہ سماجی تبدیلی کو بھی حوصلہ دیتی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پچھلی دہائی میں واضح سماجی ، اقتصادی تبدیلیوں اور پالیسیوں پر منحصر اقدام اور عورتوں کے کام کاج کے متعلق معیارات میں آئی تبدیلیوں کو ظاہر کرتی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ڈبلیو ایل ایف پی میں مواقع زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ سابقہ صدی میں دکھایا گیا اضافہ سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
عورتوں کی ورک فورس میں شراکت داری کے لیے فیصلہ کن دہائی
ہندوستان میں عورتوں کو روزگار میں بڑھاوا دینے کے لیے کئی شروعاتیں کی گئی ہیں اور اس سمت میں کئی پالیسیاں نافذ کی گئی ہیں جو ورک فورس میں عورتوں اور مردوں کے توازن کو بڑھا وا دینے کی سمت میں اہم اور قابل ذکر ترقی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان اہم اقدامات میں وزیر اعظم مدرا یوجنا شامل ہے، جس کا مقصد چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے لیے بغیر کسی گارنٹی کے قرض فراہم کرکے عورتوں کو ترجیح دینا ہے، اس کے تحت ’’بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘‘ کی ابھیان لڑکیوں کی تعلیمی حیثیت کو بہتر بنانے میں مددگار رہا ہے، جس کا سیدھا اثر مستقبل میں ان کی روزگار کی امکانات پر پڑا ہے۔ یہ کوشش کام کرنے کی جگہ پر تحفظ اور مناسب ماحول سے متعلق کارپوریٹ پالیسیوں کے ساتھ مل کر لیبر مارکیٹ میں عورتوں کیلئے رکاوٹوں کو دور کرنے کے متعلق واضح حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
غیر منظم لیبر فورس تحفظ (پی ایل ایف ایس )ورک فورس میں عورتوں کی حصہ داری میں ایک 13.9فیصد کے اضافے کو دکھاتا ہے جو 2017-18میں 22فیصد سے بڑھ کر 2022-23میں 33.9فیصد ہوگئی۔ یہ مثبت رجحان سیاسی طور پر اور نوکر شاہی (سرکاری سیکٹر ) کارپوریٹ (نجی)اور نوجوان خواتین کی قوت ارادی کو ظاہر کرتاہے۔ دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی کے طور پر ہندوستان اقتصادی امکانات کے لیے تیار ہے۔ اس سرکاری اور پرائیویٹ ایکو سسٹم کو اور مضبوط بنانا اور اعلیٰ مقام پر پالیسی ساز کو ظاہر کرنے کے لیے نوجوان عورتوں اور لڑکیوں کی یکساں شراکت داری کی شکل میں شامل کرنا کافی اہم ہے۔
لیبر اور روزگار کی وزارت (ایم او ایل آئی ) میں مشاورتی شراکت داری کا رول
ڈبلیو ایف ایل ایف پی آر میں اصلاحات لانے کے سلسلے میں سرکار سول سوسائٹی صنعتی اکائیوں اور مختلف ایجنسیوں کی نمائندگی کے ساتھ ایک ورکنگ فورس بنانے کی سمت میں ایم او ایل آئی کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ اس ورکنگ فورس کے معاملے پر مباحث سے یہ نتائج برآمد ہوتے ہیں کہ عورتوں کے لیے مساوی مواقع ان کو بااختیار بنانا ان عنوانات کے تحت اہمیت دی گئی ہے جو حصہ متعلقہ طبقات کے درمیان میں تعاون کی طاقت کو اہمیت کا حامل بناتا ہے ۔ یہ کام کاج کے مناسب ماحول یکساں تنخواہوں اور مزدوری و ورکنگ فورس میں خاص طور پر عورتوں کی ضروریات کو مناسب اور صحت مند طریقے سے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے معقول ماحول تیار کرتا ہے۔ ………
رکاوٹوں کو دور کرنا
کام میں نرمی، اوقات میں تخفیف اور بچوں کی دیکھ ریکھ کی سہولتوں جیسے اقدامات کی سفارش کرتے ہوئے اس مشق کا مقصد لیبر مارکیٹ میں عورتوں کی شراکت داری کو محدود کرنے والی کچھ بنیادی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
بنیادی کاموں میں شامل نہ غیر مقامی مزدوروں ، متوسط اور چھوٹے اکائیوں میں کام کرنے والی عورتوں کے لیے جینڈر نیوٹرل کریچ اور عورتوں کے کام کاج کے مراکز کے اقدامات کی اہمیت پر توجہ دی گئی ہے۔ آمد ورفت اور بچوں کی پیدائش پر سماجی پابندیاں دو سب سے اہم ہدف ہیں،ان سب پر بات چیت کے دوران نشان زد کی گئیں کوششیں اہم ہو ں گی۔ اس میں تحفظ صحت سے متعلق سہولیات اور عالمی سطح کی سہولیات والے اچھے معیار کے بنیادی ڈھانچے کا قیام،تبدیلی اور متبادل نمائندے کے روپ میں نوعمر عورتوں کو ترقی کے مواقع کو فراہم کرنا اور ان کے لیے فیصلے لینے کی قوت کو مضبوط کرنا ہوگا سب سے اہم ہے۔ سول سوسائٹی او ر مختلف سمتوں میں کام کرنے والی ایجنسیو ںکی مدد سے سماج اورخاندانوں کے طور طریقوں میں بدلائو لانے اور اس کو فروع دینے کی کوشش کی جائے گی تاکہ مراکز کو عورتوںکے لیے اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کی سمت اور اپنی خواہشات کو آگے بڑھانے کے لے جگہ دی جائے گی ۔
کووڈ -19کی وجہ سے ورکنگ پلیس کو دیکھنے کا ہمارا نظریہ بدل رہا ہے اور زیادہ تر ملازمتیں ہائی برڈ اور ریموٹ کے طریقہ کار سے لائی گئی ہیں۔ ایسے حالات میں صنعتی اکائیوں اور روایتی کام کرنے کے مقامات اور ورکشاپوں کی باریکیوں کو ختم کرنے میں انقلابی ثابت ہوسکتی ہے۔ ٹیلی ورکنگ سہولتیں سمیت عورتوں اور مردوں سبھی کے لیے نرم مواقع فراہم کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس جذبے کو محفوظ بنانے کی جانب زور دیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس پورے معا ملے کی دیکھ بھال کے لیے دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہونی چاہیے اور عورتوں کو خود پر پڑنے والی دیکھ بھال کے غیر متوقع کام کے بوجھ کی وجہ سے روزگار سے باہر نہیں جاناچاہیے۔
یہ صورت حال عورتوں کو اقتصادی بااختیار بنانے کی سمت میں ایک پیش رفت ہے۔ حالانکہ یہ چیلنجز سے بھرپور ہے مگر راستے دکھاتے ہوئے ان فائدوں کو برقرار رکھنے اور منظم کرنے کے لیے مسلسل پالیسی سازی کی تبدیلی پر فوکس اور سماجی تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
عورتوں بازی ماریں گی
ہندوستان میں کام کرنے والے لوگوں کی زیادہ تر آبادی حاشیہ پر ہے۔ ایسے میں عورتوں کی کام کاج کی قوت ارادی کا پتہ لگانا سماجی اور سیاسی طور پر ایک بڑا معاملہ ہے۔ سماج کے سبھی طبقات کے کوششوں کے ساتھ مل کر ایم او ایل ای کا خاکہ تیار کیا گیا ہے۔
آگے کا سفر چیلنجز سے بھرا ہوا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سماج اور انسان کی پہنچ سے باہر ہے جو عالمی سطح پر ہندوستان کی کوششوں کو نہ صرف ضروری بتاتا ہے بلکہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
ان سفارشوں کو اپنا کر اور ڈبلیو ایل ایف پی آر کو بڑھانے کے لیے ہمیں متحد ہو کر ہندوستان کو مساوی اور بنیادی برابری اور اپنے سبھی طبقات کے لیے بہتر مستقبل طے کرسکتے ہیں۔ India@100کے لیے بنیادی ترقیات کی قیادت کرنے والے ’ انصاف‘ آنے والے وقت میں عورتیں طاقتور ہو ںگی۔
(مصنفہ یوواہ یونیسیف انڈیا کی سربراہ ہیں)
اقتصادی مساوات کی طرف خواتین کی پیش قدمی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS