پوری دنیا میں عالمی یوم خواتین جوش و خروش سے منایاگیا۔ ہندوستان میں بھی طرح طرح کی تقریبات منعقد کی گئیں۔ کولکاتا سے دہلی تک کئی سرکاری تقریبات ہوئیں، رضاکار اداروں نے بھی محفل سجائی جس میں خواتین کی طاقت،ہمت اور حوصلہ کی پراثر کہانیاں بیان کی گئیں۔ ہندوستان میں عورتوں کو ’ دیوی‘ کادرجہ دینے کی روایت کا بھی ذکر ہوا۔اپنے سروں پر ’فیمنسٹ‘کی کلاہ افتخار سجانے کی آرزو مند اشرافیہ طبقہ کی چند مٹھی بھر خواتین کی ’مزاحمتی جدوجہد‘ کو پوری دنیا کی خواتین کی بے باکی اور جرأت کا استعارہ بتایا گیا۔ چادر اور چہاردیواری کے تحفظ سے باہر نکال کر سائنس، کاروبار، ثقافت کے شعبہ میں خواتین کو بے امان کیے جانے کی کہانی بھی ’مساوات اور حقوق نسواں‘ کے خوبصورت اوربعنوان شائستہ سنائی گئی۔
وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اس موقع کا خوب استعمال کیا اور حسب معمول ’ ناری شکتی ‘کی طاقت، ہمت اور لچک کو سلام پیش کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں ان کی کامیابیوں کی تعریف کی ہے۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ ان کی حکومت تعلیم، صنعت، زراعت، ٹیکنالوجی اور دوسرے شعبۂ جات میں پہل کے ذریعہ خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے پرعزم ہے۔اس موقع پر انہوں نے رسوئی گیس کے سلنڈر کی قیمت میں 100روپے کی کمی کابھی اعلان کیا اور کہا کہ اس سے ’ناری شکتی‘ کو فائدہ پہنچے گا۔ان کی زندگی آسان ہوگی بلکہ کروڑوں خاندانوں کا مالی بوجھ بھی کم ہوگا۔ یہ قدم ماحولیاتی تحفظ میں بھی مددگار ثابت ہوگا جس سے پورے خاندان کی صحت بھی بہتر ہوگی۔کھانا پکانے والی گیس کو مزید سستی بنا کر ہمارا مقصد خاندانوں کی فلاح و بہبود اور صحت مند ماحول کو یقینی بنانا ہے۔ یہ خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کیلئے گزر بسر کی آسانی کو یقینی بنانے کے ان کے عزم کے مطابق ہے۔
صنفی مساوات کا ڈھول پیٹنے اور’کامیاب خواتین‘ کی عظمت کا اعتراف اور ناری شکتی کی وندنا کے درمیان ہندوستان میں سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی استحصال کی شکار،سماجی جبر کی ہولناکیوں کا سامنا کرتی مظلوم اور محروم خواتین کے مسائل کا کہیںذکر سننے میں نہیں آیا۔ نہ کسی ادارہ، تنظیم نے ہی خواتین کے سلگتے ہوئے مسائل پر بات کی۔ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے انسداد کی کوئی حکمت عملی ہی زیرغو ر رہی نہ کسی نے قومی راجدھانی دہلی میں خواتین پر بڑھتے مظالم کے اسباب کا ہی جائزہ لیا۔گھر سے باہر نکل کر کاروبار دنیا میں سرگرم رہنے والی خواتین کی دوہری ذمہ داریوں پر بھی کہیں سے تاسف کا اظہار ہوااور نہ اس روایت کی تبدیلی کا ناقوس ہی پھونکا گیا۔
خواتین کی عظمت اور طاقت کو سلام کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی بھی خواتین کے خلاف جرائم کوروکنے کے بجائے سیاسی فائدہ اور نقصان کا پیمانہ بناتے نظرآئے۔ملک بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم پر بات کرنے کے بجائے انہوں نے سیاسی فائدہ کے مدنظر مغربی بنگال کے سندیش کھالی کی خواتین کے ساتھ انصاف کی بات کی۔مگر منی پور میں خواتین پر ڈھائے گئے مظالم پران کی آنکھوں میں کوئی قطرہ اشک آیانہ اتراکھنڈ کی دیوبھومی میں انکیتا بھنڈاری کے ساتھ ہوئے وحشیانہ سلوک پر ان کاگوشہ لب ہی کپکپایا۔
حقیقت یہ ہے کہ دہائیوں سے منائے جارہے عالمی یوم خواتین کے باوجود ہندوستان کی عام خواتین کے استحصال میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔خواتین کو دیوی کا درجہ دینے اور صنفی مساوات کا ڈھول پیٹنے والایہی معاشرہ خواتین پر جنسی جبر اورقتل کے خوف ناک و دلخراش واقعا ت کا ریکارڈ قائم کر رہاہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان کی فی لاکھ آبادی میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح 66.4فیصد ہے۔صرف ایک سال2022میں خواتین کے خلاف 4.5 لاکھ سنگین جرائم کے واقعات پیش آئے ہیں۔ یعنی ہر گھنٹے تقریباً 51خواتین سماجی جبر، تشدد اور جنسی ہراسانی کا سامنا کرتی رہی ہیں۔
یہ درست ہے کہ حکومت اپنی مختلف پالیسیوں اور فیصلوں سے خواتین کی حیثیت کو بلند کرنے کاکام کرسکتی ہے، ان کی عزت، وقار اور تحفظ کی سبیل بھی وہی نکال سکتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ حکومت دعوئوں،وعدوں اور خوش نما نعروں سے آگے نہیں بڑھی ہے۔ لیکن معاشرہ بھی اس ہولناک صورتحال کیلئے اتنا ہی ذمہ دارہے جو خواتین کو ’نجی ملکیت‘ سمجھنے کی مکروہ نفسیات سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہو رہا ہے۔
عالمی یوم خواتین اسی وقت بامعنی ہوسکتا ہے اور ہندوستان کی خواتین خود کو بااختیار محسوس کرسکتی ہیں جب حکومت سیاسی نفع نقصان کی تنگ ذہنیت سے باہر نکل کر ملک بھر کی خواتین کی عزت و حرمت اور حقوق کیلئے یکساں قول و عمل کا مظاہرہ کرے اور معاشرہ بھی خواتین کو ’نجی ملکیت‘ سمجھنے کی مکروہ نفسیات کا علاج ڈھونڈے۔
[email protected]
خواتین،حکومت اور معاشرہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS