اسرائیل کی عالمی سطح پر تنزلی اور دنیا کی انسانیت کی جانب مراجعت: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

امریکی صدر جوبائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ 4مارچ دوشنبہ تک فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوجائے گی، مگر جس کا یقین تھا وہی ہوا اور اس وقت بھی فلسطین میں اسرائیلی بمباری جاری ہے،جس میں تیس ہزار سے زائد شہریوں کی موت ہو چکی ہے،دواؤں اور کھانے کے لیے جس طرح سے فلسطینی مرد و عورت اور بچے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ بھی دنیا کے سامنے ہے۔جانوروں کے لیے محفوظ دنیا کا خواب دیکھنے اور اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والی دنیا ان معصوم اور نہتے بچوں کو دیکھ رہی ہے مگر اسے شرم نہیں آرہی ہے،بیان بازی سے آگے کوئی بھی نہیں بڑھ رہا ہے،خواہ وہ عرب ممالک ہوں یا پھر دنیا کو درس امن دینے والا ہندوستان، سب کی زبان پر تالے لگے ہوئے ہیں۔کوئی نہیں جانتاکہ اس جنگ کا خاتمہ کب اور کیسے ہوگا۔اہل غزہ اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں، وہ مسلسل امید وبیم کے درمیان جی رہے ہیں،انہیں اپنی بقا اور وجود کی جنگ تو لڑنی ہی ہے۔وہ جانتے ہیں کہ اگر آج ہم بیٹھ گئے تو ہمارا وجود ختم ہوجائے گا کیونکہ دشمن کا مقصدہی یہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ غزہ پوری طرح سے تباہ و برباد ہو چکا ہے،بنیادی ڈھانچے سے لے کر انسانی ڈھانچے تک زمین دوز ہوچکے ہیں، ہاں مگر باقی ہے تو وہ عزم اور استقلال ہے۔یہی وہ جذبہ ہے جسے اسرائیل ابھی تک توڑ نہیں پایا ہے۔ایک بھی فلسطینی ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا ہے جس نے حماس کے خلاف لب کشائی کی ہو،جس نے حماس کو طعنہ دیا ہو،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حماس فلسطینیوں کے دلوں کی صرف دھڑکن نہیں ہے بلکہ وہ عوام کے حق کی لڑائی لڑ رہی ہے۔
یہ جنگ صرف حماس /فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کی نہیں ہے بلکہ اب یہ جنگ دنیا کے احساسات و جذبات اور خیر و شر کے درمیان تمیز کی قوت کی بھی ہے۔مادیت اور انسانیت کی جنگ بن گئی ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا صرف مادیت کے سہارے بہت دنوں تک ترقی نہیں کرسکتی،اسے ایک دن انسانیت کی طرف واپس آنا ہے اور دنیا نے اس جانب مراجعت شروع بھی کردی، اگرچہ مراجعت کرنے والوں کی تعداد قلیل ہے مگر یہ سفر شروع ضرور ہوچکا ہے۔
دنیا سمجھ رہی ہے کہ اسرائیل یہودیوں کے لیے ایک قلعہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ صرف دنیا کی سوچ ہے حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل یہودیوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے،ان کے وجود کو استحکام کے بجائے غیریقینیت ملی ہے، وہاں کے شہری خود کو غیرمحفوظ تصور کرتے ہیں۔ڈیوڈ گروس مین (David Grossman)نیویارک ٹائمس میں شائع اپنے مضمون Israel Is Falling Into an Abyssمیں لکھتے ہیں:اسرائیل نہ تو تحفظ فراہم کرتا ہے اور نہ ہی آسانی، 7اکتوبر کے بعد پتہ چلا اسرائیل نہ صرف لفظ ’گھر‘ کے معنی کو مکمل کررہا ہے بلکہ وہ یہودیوں کے لیے ایک محفوظ قلعہ بھی نہیں بن سکا ہے۔
On that awful black Saturday, it turned out that not only is Israel still far from being a home in the full sense of the word, it also does not even know how to be a true fortress.
یہ تو اسرائیل کی حالت قومی سطح پر ہے،جب اسرائیلی نفسیاتی سطح پر پیچیدگیوں کا شکار ہوئے ہیں،ان کو اس بات کا ہمیشہ خوف رہتا ہے کہ وہ غیر محفوظ اور غیر یقینی حالت میں جی رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جو بستیاں بسائی گئی ہیں وہ فلسطینیوں کی ملکیت ہیں اورکمزور انسان کبھی کبھی شب خون مار سکتا ہے،ایسے میں ان کی زندگی کا کوئی ٹھکانا نہیں لیکن عالمی سطح پر اس سے کہیں زیادہ برا حال ہوتا جا رہا ہے۔ تھامس ایل فریڈمین نے گزشتہ ماہ کے آخر میں اپنے ایک سفر کے بعد لکھا تھا کہ ’’دہلی،دبئی اور عمان کے حالیہ سفر کے بعد امریکی صدر بائیڈن اور اسرائیل کے لیے ہمارے پاس ایک پیغام ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں دوست ممالک میں اسرائیل کی حمایت میں تیزی سے گراوٹ دیکھ رہا ہوں، اسرائیل کو قبول کرنے اور اسے سفارتی سطح پر جو کامیابی دہائیوں محنت سے ملی تھی، اگر بائیڈن فوراً محتاط نہ ہوگئے تو اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ کی بھی عالمی حیثیت گر جائے گی۔‘‘تنزلی کا یہ ارتقائی سفر دیکھئے کہ تھامس ایل فریڈ مین کی آنکھیں جو عالمی سطح پر دیکھ رہی تھیں، ڈیوڈ گراس مین اسے بیان کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی ساؤتھ امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک ’’چلی‘‘ نے اعلان کردیا ہے کہ سب سے بڑے ’’ایرو اسپیس فیئر‘‘ میں اسرائیلی کمپنیوں کو شرکت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔چلی کی حکومت نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ9سے 14اپریل تک چلنے والے بین الاقوامی ایرو اسپیس فیئر میں اسرائیلی کمپنیاں شرکت نہیں کرسکیں گی۔چلی نے اس سے قبل اسرائیلی حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کے حملوں کو اجتماعی سزا قرار دیا تھا،اسی طرح میکسیکو نے جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ کا مطالبہ کیا تھا۔اس کے علاوہ امریکی اور افریقی ممالک میں جس طرح سے اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہوئے،پوری دنیا میں جس غم و غصے کا اظہار کیا گیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل قومی اور بین الاقوامی سطح پر کس طرح اچھوت بنتا جا رہا ہے جس کا سب سے بڑا سبب فلسطینیوں پر اس کا ظلم ہے۔
اسرائیل کی مقبولیت میں روز بروز گراوٹ آ رہی ہے، دنیا اس کے مظالم پر چیخ رہی ہے مگر ہندوستان میں مخالفت کی آواز خاموش ہے، جس کی وجہ یہاں اسرائیل کی مقبولیت نہیں ہے بلکہ تھامس ایل فریڈ مین کی زبان میں اس پورے علاقے میںوزیراعظم نریندر مودی کی واحد ہندو حکومت کا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ہر ایک کو اس بات کا خوف ہے کہ اگر وہ اسرائیل کی حمایت میں گھروں سے باہر نکلے تو ان کے گھر مسمار کردیے جائیں گے،وہ حکومت کے عتاب کا شکار ہوجائیں گے۔حکومتیں اپنے اور اپنے دوستوں کے مخالفین کوکبھی عملی جبر اور کبھی نفسیاتی جبر کا شکار کرتی ہیں،ہندوستان کے عوام ہمیشہ امن کے علمبردار رہے ہیں،انہوں نے دنیا کو اخوت و محبت کا پیغام دیا ہے، اسی لیے گاندھی جی سے لے کر ہندوستان کی نوزائیدہ حکومت تک نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کیا تھا مگرجمہوریت میں وقت کے ساتھ حکومتیں بدلتی ہیں تو نظریے بھی بدل جاتے ہیں،فلسطین کے معاملے میں ہندوستان میں یہی ہوا ہے۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نفسیاتی جبر اسرائیل کو غیر مقبول ہونے سے بچالے گا،بس فرق یہ رہے گا کہ دنیا جسے ظلم کی بنیاد پر اچھوت سمجھنے لگی ہے اسے ہم گلے لگائیں گے،جس سے ہمارے دل کی سیاہی دنیا کے سامنے آجائے گی۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین میں 30ہزار سے زائد عوام کا قتل عام کیا ہے اور مسلسل کر رہا ہے،جس میں بچے،بوڑھے اور خواتین شامل ہیں۔ اسرائیل کی اس جنگ نے سبھی فلسطینیوں کو بھوک کے جس دہانے پر پہنچا دیا ہے اور جس طرح سے اشیائے خوردنی اور دواؤں کی ناکہ بندی کی ہے، اس نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، ہم نے بھی امداد ارسال کردی ہے مگر یہ سب جانتے ہیں کہ آج فلسطین کو اس امداد کے بجائے ایک ایسے مضبوط تعاون کی ضرورت ہے جو فلسطین میں پائیدار امن کا باعث بنے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS