مراق مرزا
ماہرین سیاست کے بموجب سیاست کی دو قسمیں ہوتی ہیں- ایک کسی ملک کی سیاست اور دوسری بین الاقوامی سیاست۔ دونوں ہی سیاست کا بڑا اور اہم مقصد مفاد کا حصول ہوتا ہے۔ سیاست کی اس بنیادی حقیقت سے الگ اس روئے زمین پر بہت سی لڑائیاں برتری بنائے رکھنے کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ جس طرح شیر جنگل میں اپنی دہشت برقرار رکھنے کے لیے کمزور جانوروں کو چیرپھاڑ کر کھا جاتا ہے، اسی طرح عالمی سیاست کا کھلاڑی خودکو سپرپاور کہلائے جانے کے جنون میں غریب اور کمزور ملکوں کے درمیان جنگیں کرواتا ہے تاکہ اس کی بادشاہت قائم رہے اور کمزور ممالک اس کے غلام بنے رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن جب اقتدار میں آئے تھے تو خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ قدرے لبرل، روشن خیال سیاست داں ہیں۔ وہ عالمی سطح پرامن وامان، سماجی انصاف اور حقوق انسانی کی پاسداری کریں گے مگر آج ان کا کردار دنیا کے سامنے واضح ہوچکا ہے۔ ان کے دور صدارت میں امریکہ اسی راستے پرچل رہاہے جس پر وہ اپنے قیام کے بعد سے چلنا شروع کیا تھا۔ شام میں خانہ جنگی کی چنگاری 2011 میں بھڑکی تھی۔ پھر دھیرے دھیرے یہ شرارہ بموں اور بارود کی بارش میں تبدیل ہو گیا۔ مہلک ہتھیاروں کی گونج سے اس چھوٹے سے ملک کی زمین دہل اٹھی۔ آج قریب بارہ سال گزرچکے ہیں۔ اس دوران اس ملک میں دنیا نے جو تباہ کاریاں دیکھی ہیں، وہ انسانی قلب و ذہن کو جھنجھوڑ دینے والی ہیں۔ ہزاروں رہائشی مکانات، دکانیں، کاروباری عمارتیں، تعلیمی ادارے اور اسپتال زمین بوس ہوگئے۔ لاکھوں بے قصور افراد موت کی آغوش میں سما گئے۔ بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرکے آس پاس کے دیگر ممالک میں مہاجر کی زندگی گزار نے پر مجبور ہو گئے۔
کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ شام کی تاراجی کا ذمہ دار کون ہے؟ لڑائی مٹھی بھر طلبا کے ذریعے شروع ہوئی تھی جنہوں نے صدر بشارالاسد کے خلاف کچھ قابل اعتراض باتیں شہر کی دیوار پر لکھ دی تھیں۔ اس کے بعد جو ہوا، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ عالمی سیاست کے اژدہے کس طرح شام کی زمین پر رینگنے لگے، یہ سبھی جانتے ہیں۔ اس ملک کو خانہ جنگی کے دوزخ میں کس نے دھکیلا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی برطانیہ، اسرائیل اور سعودی عرب بشارالاسد مخالفین کے پیچھے کھڑے تھے تو دوسری جانب روس، ایران اور چین بشارالاسد کے حامی تھے۔ عالمی سیاست اپناخونیں کھیل کھیل رہی تھی۔ متذکرہ تمام ممالک کے اپنے اپنے مفاد اس کھیل کا حصہ تھے اور شام میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ عالمی سیاست کے قلاباز شامی بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کی موت کا تماشا دکھارہے تھے اور دنیا حیرت سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ یہ ہے عالمی سیاسی کھلاڑیوں کابھیانک چہرہ۔ دو ایک برس قبل چین کی پیش قدمی کے باعث سعودی عرب اور ایران کے درمیان جو مصالحت ہوئی ہے، اس سے شام میں قدرے امن وامان دکھائی دے رہاہے، تاہم یہ امن مستقل نہیں ہے۔ روس نے شام کے کچھ سرحدی علاقوں میں اپنی فوج اتار دی ہے، کیونکہ ایک تازہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ داعش کے لڑاکے دوبارہ سراٹھاسکتے ہیں اورخانہ جنگی کی آگ پھر سے بھڑک سکتی ہے۔
آج کی دنیا اس حقیقت سے باخبرہے کہ امریکہ عالمی سیاست میں اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ سپرپاور ہونے یا کہلانے کے باوجود امریکہ نے جنگیں بہت کم لڑی ہیں۔ وہ لڑنے سے زیادہ چھوٹے ممالک کو ایک دوسرے سے لڑانے میں یقین رکھتا ہے تاکہ اس کے اسلحوں کا کاروبار بدستور جاری رہے۔ عراق، افغانستان اور لیبیا میں جو کچھ بھی ہوا، نیز یوکرین اور فلسطین میں جو کچھ ہورہاہے، اس کے لیے کسی حد تک ذمہ دار یہ ہتھیاروں کا بیوپاری ہی ہے۔ شام سے لے کر فلسطین تک جتنی بھی جانیں ضائع ہوئی ہیں، اس کی ذمہ دار عالمی سیاست ہی ہے۔ فلسطین پر ہنوز ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری ہے۔
حال ہی میں غزہ کے ایک مقام پر سیکڑوں فلسطینی مظلومین کھانے پینے کی امدادی اشیا لینے کے لیے جمع ہوئے تھے، اسرائیلی فوجیوںنے ان مظلومین پر بلاوجہ اندھادھند گولیاں برسا دیں جس کے نتیجے میں قریب سو افراد مارے گئے اور کافی تعداد میں زخمی بھی ہوئے۔ بربریت کا ایسا واقعہ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ امداد لینے کے لیے آئے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اسرائیلی فوجیوں کی اس شرمناک حرکت پر آج وہ ممالک بھی حیران ہیں جو 5 ماہ سے جاری اس جنگ کے دوران ہمیشہ اسرائیل کی حمایت میں کھڑے نظرآئے ہیں۔ امریکہ،فرانس اور جرمنی کے سربراہان نے بھی اس واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ چند دیگر ممالک نے بھی اس کی مذمت کی ہے اور اب کسی طرح جنگ روکنے کی بات کہی جا رہی ہے۔
جو بائیڈن کو غالباً یہ احساس ہو گیا ہے کہ اسرائیل کی پشت پناہی کرکے امریکہ، فلسطین کو دنیا کے نقشہ سے مٹا نہیں سکتا، اس لیے امریکہ اب چاہتا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین جلد ہی کوئی سمجھوتہ ہو جائے اور یہ جنگ رک جائے لیکن بنیامن نیتن یاہو ایک ایسے لیڈر ہیں جو اپنی کرسی بچائے رکھنے کے لیے چاہتے ہیں کہ جنگ جاری رہے جبکہ عام سوچ یہ ہے کہ حماس، حوثی اور حزب اللہ جنگ بندی نہیں چاہتے۔ یہ حقیقت اب واضح ہو چکی ہے کہ فلسطینی دنیا کے سب سے مظلوم لوگ ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے عام لوگ مسلسل فلسطین کے حق میں اور اسرائیلی بربریت کے خلاف سڑکوں پر آکر آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ خبربھی وائرل ہوچکی ہے کہ دو ایک ہفتے قبل واشنگٹن میں امریکی فضائیہ کے ایک جوان افسرنے اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے خود کو آگ لگا کر خودکشی کرلی۔ یہ خودکشی درحقیقت قربانی ہے اور عالمی سیاست کے قلابازوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ چند یوم قبل کنیڈا اور اٹلی کے وزرائے اعظم جسٹن ٹروڈو اور جارجا میلونی اسرائیل- فلسطین جنگ کے حالات پر مذاکرات کے لیے کنیڈامیں ملاقات کرنے والے تھے مگر ٹورنٹو میں جس مقام پر یہ ملاقات ہونے والی تھی وہاں ہزاروں کی تعداد میں عام انصاف پسند شہریوں کی بھیڑ جمع ہوگئی اور اسرائیل کے خلاف اس قدر نعرہ بازی ہوئی کہ دونوں سربراہان کی میٹنگ ملتوی کرنی پڑی۔
امدادی سامان لینے آئے مظلوم فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل کے بعد دنیا بھر میں منظر بدل گیا ہے۔ امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور اقوام متحدہ میں امریکی سفارت کار کی حیثیت سے کام کرنے والی خاتون لنڈا تھامس گرین فیلڈنے اسرائیلی فوجیوں کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے اورجنگ بندی کی کوششیں تیز کرنے کی بات کہی ہے۔ خود اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ اپناچہرہ بچانے کے لیے امریکہ نے ڈرون کے ذریعے غزہ میں 38 ہزار کھانے کے پیکٹس گرائے ہیں۔ عالمی سیاست کا کھیل اسی طرح کھیلا جاتا ہے جس طرح امریکہ کھیل رہا ہے۔ ایک طرف فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لیے اسرائیل کو ہر طرح کے مہلک ہتھیار دے رہا ہے اور دوسری طرف غزہ میں کھانے کے پیکٹ بھی گرا رہا ہے۔ عالمی سیاست کی یہ بھی ایک تصویر ہے۔
بہرکیف، سیاست کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے لوگ یہ جانتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر اسرائیل کا وجود عالمی سیاست کی سازشوں کا ہی نتیجہ ہے۔ عالمی سیاست کے ہی کچھ کھلاڑیوں نے 70 برس قبل اس صہیونی طاغوت کو جنم دیا جو آج فلسطین کو پوری طرح نگلنے پر آمادہ ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ طاغوت فلسطینیوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں اپنی پوری طاقت صرف کر رہا ہے اور اس کی اس کوشش میں مغربی میڈیا اور امریکہ کے ساتھ ساتھ کچھ دیگرمغربی طاقتیں بھی ساتھ دے رہی ہیں مگر اب فیصلے کا وقت آگیا ہے۔ اسرائیل کو گریٹراسرائیل بنانے کا نیتن یاہو کا جوخواب ہے، وہ کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا۔ حماس اور حزب اللہ بڑی جانبازی سے صہیونی فوجوں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ حوثی لڑاکے بھی اپنے طریقے سے اسرائیل کی ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔ نیتن یاہو ایک ایسی گہری کھائی میں اتر گئے ہیں جہاں سے نکلنا اب ان کے لیے ناممکن ہے۔
ویٹیکن کے پوپ فرانسس پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل- فلسطین مسئلے کا حل دو ریاستوں کی تشکیل سے ہی ممکن ہے اور عالمی سیاست کے کچھ ماہرین اب یہ کہنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی اب دور نہیں ہے۔ اس دوران بیشتر عرب ملکوں کا جو رویہ رہا ہے، وہ بے حد افسوس ناک ہے لیکن ان مسلم ملکوں کے حکمرانوں سے یہ امیدنہیں کی جاسکتی کہ وہ فلسطینیوں کے لیے کھل کر میدان میں اتریں گے۔ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ آج نہیں توکل اپنے انجام کو پہنچ جائے گی، تاہم یہ سوال تو پریشان کرتا رہے گا کہ 5 ماہ کے دوران جو ہزاروں بے قصور لوگ مارے گئے، ان کی موت کا حساب کون دے گا؟ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں عالمی سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی کے خلاف کوئی مقدمہ توچلے گانہیں!
یہ بھی پڑھیں:
13 برس کی خونیں تاریخ!
تیونس میں بے روزگار گریجویٹ نوجوان محمد البو عزیزی کی خود سوزی کی کوشش کے بعد عوام مشتعل ہو گئے تھے اور ان کے اشتعال نے احتجاج کی راہ اختیار کر لی تھی۔ اس احتجاج سے متاثر ہوکر دیگر ملکوں میں بھی مظاہرہ کرنے کے لیے لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ان ملکوں میں شام بھی تھا۔ محمد البو عزیزی نے 17دسمبر، 2010کو خودسوزی کی کوشش کی تھی اورشام میں احتجاج کی لہر15مارچ، 2011 سے شروع ہوئی تھی یعنی 15 مارچ، 2024 کوشام کی خانہ جنگی کو 13 برس مکمل ہو جائیں گے۔ شام کی یہ 13 برس کی تاریخ خونیں تاریخ ہے۔ اس میں اب تک کتنے لوگوںکو جانیں گنوانی پڑی ہیں، اس سلسلے میں دعویٰ سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ اقوام متحدہ کے حوالے سے آنے والی رپورٹ کے مطابق، مارچ، 2021 تک یعنی خانہ جنگی کے پہلے 10 سال میں شام میں مجموعی طور پر 580,000 سے 613,407 لوگوں کو جانیں گنوانی پڑی تھیں۔ ان میں 306,887 سے زیادہ شہری تھے۔ گزشتہ تین برسوں میں ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہی ہوا ہوگا، کیونکہ شام میں ابھی بھی مستقل امن بحال نہیں ہو سکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہی حوالے سے آنے والی رپورٹ کے مطابق، مارچ 2021 تک شام کے 67 لاکھ لوگ اندرون ملک گھربار چھوڑ کر مہاجر کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے جبکہ 66 لاکھ لوگ وہ تھے جنہوں نے شام چھوڑ دیا تھا اور مختلف ملکوں میں مہاجر کی زندگی گزارنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ مہاجرین کی فلاح و بہبود کے بارے میں عالمی لیڈران چاہے کچھ بھی کہیں لیکن دنیا کے حالات اس طرح کے بنتے جا رہے ہیں کہ مہاجرین کی تعداد بڑھنے کا ہی اندیشہ ہے، کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ شام کے حالات بہتر بنانے پر اگر توجہ دی جاتی، اگر وہاں مستقل امن قائم کردیا جاتا تو مہاجرین کی تعداد کم کی جا سکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا، کیونکہ ملکوں کو اپنے مفاد کے سامنے انسانوں کے دکھ سکھ نظر نہیں آتے۔ گزشتہ تین برس میں حالات زیادہ بہتر نہیں ہوئے ہیں لیکن زیادہ خراب بھی نہیں ہوئے ہیں، البتہ غزہ جنگ کے جاری رہنے سے یہ اندیشہ ختم نہیں ہوا ہے کہ حالات کبھی بھی بد سے بدترہو سکتے ہیں۔