قانون کی نظر میں فرد اور سماج کا تضاد: عارف عزیز

0

عارف عزیز
ہندوستان میں فرقہ واریت کا مسئلہ محض سیاست دانوں کی بوکھلاہٹ اور خیال پرستی کی بدولت کینسر بنتا جارہا ہے اور اس کی جڑیں سماج کے اندر گہرائی تک اترنے کی بنیادی وجہ بیماری کی شدت نہیں۔ علاج کی کمزوری اور تشخیص کی غلطی ہے، قانون کے بارے میں لوگوں نے بہت کچھ خوش فہمیاں قائم کررکھی ہیں، لیکن جن لوگوں نے اسے بنایاتھا انہوں نے اس کا تصور ہتھیار گھماتے ہوئے ایک اندھے پیکر کی شکل میں پیش کیا تھا، یہی سبب ہے کہ قانون کا احترام سب پر فرض ہے مگر اس کی ناگزیریت کا ہر کوئی قائل ہے۔ برسوں سے قانون کا مکمل احترام کرتے ہوئے ایک ایسے سماج کے قیام کا خواب دیکھا جارہا ہے جس میں پولس اور فوج کی ضرورت باقی نہ رہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ انسان تعزیر سے زیادہ جرائم کے رجحان سے خوف زدہ رہتا ہے۔
قانون سزا ضرور دے سکتا ہے مگر جرم پر قابو نہیں پاسکتا ہے کیونکہ جرائم جب تک انفرادی حدود تک رہتے ہیں قابل تعزیر سمجھے جاتے ہیں لیکن جس لمحہ اجتماعی عادت کی صورت اختیار کرجائیںسوسائٹی کی اکثریت ان کے حق میں ہوجاتی ہے اور وہیں سے قانون کا عمل بھی تبدیل ہوجاتا ہے لہذا وہ ان کو روکنے کے بجائے ان کے تحفظ کے لیے استعمال ہونے لگتے ہیں۔
دنیا میں ماضی قریب تک امرد پرستی اور ہم جنسی ایک لعنت اور جرم خیال کی جاتی تھی، لیکن برطانیہ اور سویڈن میں وہ ایک ایسا فعل بن گئی ہے جس پر اعتراض کرنا خلاف قانون ہے، خود ہندوستان میں بھی آسام، بہار، اترپردیش، اور مہاراشٹر میں مسلم اقلیت کے خلاف جو کچھ ہوا ہے یا ہورہا ہے، اس سے بھی اگر کچھ واضح ہوتا ہے تو وہ یہی ہے کہ قانون ایک ایسا ہتھیار جو افراد کے خلاف سخت اور سماج کے رو برو نرم اور بے بس نظر آنے لگتا ہے اور اس کی عمل پذیری کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ اس کا غلط اور بے جا استعمال جرائم کو روکنے میں عاجز نظرآتا ہے بلکہ ان کے فروغ کا سبب بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ فرقہ پرستی کے انسداد میں قانون کوئی کارگر کردار ادا نہیں کرسکتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ میں قانون کی حیثیت امداد دینے والے ایک ہتھیار کی رہتی ہے اس کی مشین کیونکہ انسانوں کی ہی بنائی ہوئی ہے۔ لہٰذا وہ مقصد میں امداد کرسکتی ہے فریق بننا اس کے لئے مشکل ہے اسی طرح وہ حرکت میں ضرور لائی جاسکتی ہے خود بخود حرکت پذیر نہیں ہوسکتی۔
ملک میں قانون اور سماج کے اجتماعی تصادم وٹکرائو کا مشاہدہ کرنا ہو تو ذات پات کے مسئلہ میں کیا جاسکتا ہے، قانون طویل مدت سے اچھوت اقوام کی مدد پر کھڑا ہے، لیکن چھوت چھات کے چہرہ کی رونق ذرابھی کم نہیں ہوتی، اچھوت آج بھی بے دردی سے مارے جارہے ہیں اور ان کو طرح طرح سے مظالم کا شکار بنایا جارہا ہے، فرقہ پرستی کے مسئلہ کی بھی کم وبیش یہی نوعیت ہے ، فرقہ پرستی سماج کی نظروں میں اس طرح کا جرم نہیں جیساکہ ڈاکہ زنی اور چوری ہوا کرتی ہے، یہ دوسری بات ہے کہ فرقہ پرستی کی بدولت چوری اور ڈاکہ زنی سے کہیں زیادہ شدید اور ہولناک جرائم کا نمونہ سماج کو دیکھنے اور بھگتنے کو ملتا ہے۔
ویسے بھی آزاد ہندوستان میں فرقہ واریت کے سلسلہ میں قانون کو گزشتہ75 برس کے دوران اس انداز میں حرکت دی جارہی ہے کہ وہ حملہ کا نشانہ بننے والوں کے بجائے حملہ آوروں کو طاقت بہم پہنچانے کا ذریعہ بن رہا ہے جبکہ اقلیتوں کا جہاں تک تعلق ہے انہیں ڈنڈے سے زیادہ تسلی، تشفی اور انصاف کی ضرورت ہے، جہاں جہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اور فرقہ پرستی بجلی بن کر اقلیتوں پر گرتی ہے وہاں اگر تباہی وبربادی کے بعد اقلیت کے لوگوں کی تسلی اور تشفی کی شکل ہی سمجھ لی جائے قوی الامکان کچھ مسئلہ ہوسکتاہے، مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ احتساب ومقدمات میں وہی سب سے زیادہ ماخوذ کئے جاتے ہیں اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ چور کے بجائے اس آدمی کو حوالات میں بند کردیتا جس کے گھر چوری ہوگئی ہوئی ہوتی ہے، ایک طریقہ سے دیکھا جائے تو اسے بھی قانونی عمل تو کہا جائے گا مگر یہ ہر طرح کے حق وانصاف کے خلاف ہی ہوگا۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS