عبدالعزیز
مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اصلاح معاشرہ کمیٹی کی جانب سے ملکی سطح پر دس روزہ آسان اور مسنون نکاح مہم کے اعلان کے بعد خاکسار نے کئی قسطوں میں مضامین لکھے۔ ان مضامین کے پڑھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ہماری کوششوں سے مسلم معاشرے کی اصلاح کیوں نہیں ہورہی ہے؟ اور کیسے ہوسکتی ہے؟ آج ہم اس پیش نظر مضمون میں کچھ ایسی باتیں مختصراً لکھنا چاہتے ہیں جن سے بھی دونوں باتوں کا اندازہ ہوسکتا ہے۔
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ بھوپال میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس ہورہا تھا۔ اجلاس کے دوران اصلاح معاشرہ کی کارکردگی زیر بحث تھی ۔ علماء میں اس سلسلے میں چہ میگوئیاں ہورہی تھیں اور کشمکش برپا تھی۔ حسن اتفاق سے اصلاح معاشرہ کے ذمہ دار میرے بغل میں بیٹھے ہوئے تھے، میں نے نہایت ادب و احترام سے ان سے کہاکہ علماء کی اصلاح اگر ہوجائے تو معاشرے کی اصلاح آسان ہوجائے گی۔ ذمہ دار نے بغیر کسی توقف کے بڑی بے باکی سے کہاکہ ’’سب سے پہلے میری اصلاح‘‘۔ میں حیرت زدہ رہ گیا ۔ ان کی یہ بات مجھے بیحد پسند آئی۔ میں نے ان سے گزارش کی اگر آپ اسٹیج پر چلے جائیں اور وہاں سے یہ بات کہیں جو آپ نے ابھی ابھی کہی ہے تو میرے خیال سے اصلاح اور انقلاب مسلم معاشرے میں شروع ہوسکتی ہے۔
30,40 سال پہلے کلکتے میں حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے ایک مجلس میں علماء کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ ’’قلی اور مزدور مسلمانوں میں جو خوفِ خدا ہے اب وہ بھی علماء میں باقی نہیں ہے‘‘۔ مولانا محترم ملک کے بڑے عالموں میں سے ایک تھے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پہلے جنرل سکریٹری بھی تھے۔ عالموں کے بارے میں ان کی یہ بات عالموں کیلئے شاید ہی قابل قبول ہو۔ ہمارا خیال ہے کہ اب بھی ہمارے معاشرے میں علماء کا اثر دوسرے طبقے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر زمانے میں عام مسلمان علماء اور فقہاء سے ہی امیدیں وابستہ رکھتے تھے۔ علماء اور فقہاء نے جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ سنہرے حرفوں سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ آج جو کچھ مسلمانوں میں اچھائیاں پائی جاتی ہیں انہی کے کارناموں کی دین ہے۔ اس کیلئے انھیں جیل جانا پڑا۔ اپنوں کا ستم سہنا پڑا لیکن وہ حق کے راستے سے کبھی نہیں ہٹے اور نہ ہی امیروں اور بادشاہوں کے در پر دستک دی۔
بیسویں صدی کے ایک بہت بڑے دماغ نے ’اجتماعی فساد‘ کے عنوان سے 80، 85 سال پہلے اپنے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘میں لکھا تھا کہ ’’یہ جماعت علماء اور اولوالامر کی جماعت ہے جس کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں منہمک رہنا اتنا ضروری ہے جتنا شہر کے محکمۂ صفائی و حفظان صحت کا اپنے فرائض میں مستعد رہنا ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے فرض سے غافل ہوجائیں اور قوم میں ایک جماعت بھی ایسی باقی نہ رہے جو خیر و صلاح کی دعوت دینے والی اور منکرات سے روکنے والی ہو تو دین و اخلاق کے اعتبار سے قوم کی تباہی اسی طرح یقینی ہے جس طرح جسم و جان کے اعتبار سے اس بستی کی ہلاکت یقینی ہے جس میں صفائی و حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہ ہو۔ اگلی قوموں پر جو تباہیاں نازل ہوئی ہیں وہ اسی لئے ہوئی ہیں کہ ان میں کوئی گروہ بھی ایسا باقی نہ رہا تھا جو ان کو برائیوں سے روکتا اور خیر و صلاح پر قائم رکھنے کی کوشش کرتا۔
’’تم سے پہلی قوموں میں کم از کم ایسے اہل فضل ہی کیوں نہ ہوئے جو زمین میں فساد سے روکنے والے ہوتے۔ بجز چند آدمیوں کے جن کو ہم نے ان میں سے بچاکر نکال دیا‘‘۔ (ہود:10)
’’کیوں نہ ان کے علماء اور مشائخ نے ان کو بری باتیں کہنے اور حرام خوری کرنے سے باز رکھا؟‘‘ (المائدہ:9)
پس قوم کے علماء و مشائخ اور اولوالامر کی ذمہ داری سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ وہ صرف اپنے ہی اعمال کے جواب دہ نہیں بلکہ پوری قوم کے اعمال کی جواب دہی بھی ایک بڑی حد تک ان پر عائد ہوتی ہے۔ ظالم، جفاکار اور عیش پسند امراء اور ایسے امراء کی خوشامدیں کرنے والے علماء و مشائخ کا تو خیر کہنا ہی کیا ہے۔ ان کا جو کچھ حشر خدا کے یہاں ہوگا اس کے ذکر کی حاجت نہیں لیکن جو امراء اور علماء و مشائخ اپنے محلوں اور اپنے گھروں اور اپنی خانقاہوں میں بیٹھے ہوئے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی داد دے رہے ہیں وہ بھی خدا کے یہاں جواب دہی سے بچ نہیں سکتے؛ کیونکہ جب ان کی قوم پر ہر طرف سے گمراہی اور بداخلاقی کے طوفان امڈے چلے آرہے ہوں تو ان کا کام یہ نہیں ہے کہ گوشوں میں سرجھکائے بیٹھے رہیں، بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ مردِ میدان بن کر نکلیں اور جو کچھ زور اور اثر اللہ نے ان کو عطا کیا ہے اس کو کام میں لاکر اس طوفان کا مقابلہ کریں۔ طوفان کو دور کرنے کی ذمہ داری بلا شبہ ان پر نہیںمگر اس کے مقابلہ میں اپنی پوری امکانی قوت صرف کردینے کی ذمہ داری تو یقینا ان پر ہے، اگر وہ اس میں دریغ کریں گے تو ان کی عبادت و ریاضت اور شخصی پرہیزگاری ان کو یوم الفصل کی جواب دہی سے بری نہ کردے گی۔ آپ محکمۂ صفائی کے افسر کو کبھی بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے جس کا حال یہ ہو کہ شہر میں وبا پھیل رہی ہو اور ہزاروں آدمی ہلاک ہورہے ہوں، مگر وہ اپنے گھر میں بیٹھا خود اپنی اور اپنے بال بچوں کی جان بچانے کی تدبیر کر رہا ہو، عام شہری اگر ایسا کریں تو چنداں قابل اعتراض نہیں لیکن محکمۂ صفائی کا افسر ایسا کرے تو اس کے مجرم ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
بہت دنوں کی بات ہے ،مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی،ؒ مولانا سجاد احمد اسپتال کی افتتاحی تقریب کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’’جہیز کے خلاف جہاد کرنا چاہئے‘‘۔ جناب علیم خان فلکی جہیز کے خلاف واقعی جہاد کر رہے ہیں اور شادی بیاہ کی رسومات اور فضول خرچی کے خلاف بھی جہاد کرنے میں ہندوستان میں بہت آگے ہیں۔ ان کا ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں پاکستان کے ایک مولانا اور مبلغ اسلام جن کی تقریر ہندوستان اور پاکستان میں کافی سنی جاتی ہے ان کا ایک عالمی جماعت سے تعلق بھی ہے ان کے بارے میں دکھایا ہے کہ وہ خطبۂ نکاح پڑھنے کیلئے شادی کی ایک ایسی تقریب میں شرکت کیلئے جارہے ہیں جس میں تقریب منعقد کرنے کیلئے 200 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ہیں۔ ان کو نکاح کا خطبہ پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ علیم صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا ایسی تقریبوں کو اگر روک نہیں سکتے تو کم سے کم ایسی تقریبوں میں جانے سے رک تو سکتے ہیں۔ خاکسار نے حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’امام صاحبؒ کو جب بادشاہِ وقت کی ماں اپنے بادشاہ بیٹے کے کھانے پر دعوت دینے آئی تو امام صاحب نے شرکت کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ میں ایسی جگہ نہیں جاتا جہاں اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی ہوتی ہو‘‘۔ علیم صاحب نے اسی ویڈیو میں جس میں پاکستان کے عالم دین کی تقریب میں شرکت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے دارالعلوم کے مفتی صاحب سے انھوں نے ملاقات کی اور ان سے کہاکہ ’’آپ کو ایسی شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت نہیں کرنی چاہئے جہاں شریعت شکنی ہوتی ہے و اللہ اور رسولؐ کے احکامات کی نافرمانی ہوتی ہو‘‘۔ مفتی صاحب نے جواب میں کہاکہ ’’آٹھ دس جگہوں سے ان کے پاس دعوت نامے آتے ہیں تو دو تین جگہ مشکل سے جاتا ہوں‘‘۔ علیم صاحب نے کہاکہ یہی بات دوسرے مفتیانِ کرام بھی اگر کہیں تو پھر تو ہر تقریب میں کوئی نہ کوئی عالم شرکت کیلئے مل جائے گا۔ پھر کیسے عوام پر ایسی غلط اور غیر اسلامی تقریبوں کے جائز اور ناجائز ہونے کی حقیقت واضح ہوگی‘‘۔ علیم خان نے عالم صاحب اور مفتی صاحب کے عمل کا جو ذکر کیا ہے اس پر غور کرنا چاہئے کہ علماء کرام یا مفتیان کرام اگر غیر شرعی تقریبات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے اور اس کی مذمت نہیں کریں گے تو آخر کون ایسی تقریبات جو شریعت کے خلاف ہوتے ہیں ان کے خلاف بیان دے گا اور کون مذمت کرے گا؟ ٭٭٭