سندیش کھالی کے واقعہ سے ملک متحیر

0

اودھیش کمار

مغربی بنگال کے سندیش کھالی اسکینڈل نے پورے ملک کو متحیرکردیا ہے۔ آخر، قانون کی حکمرانی والی کس ریاست میں ایسا ممکن ہے کہ کوئی یا کچھ لوگوں کا گروپ جب چاہے جتنی تعداد میں چاہے خواتین کو بلا لے اور ان کا استحصال کرے؟ وزیراعلیٰ ممتابنرجی کہتی ہیں کہ سندیش کھالی معاملہ کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندیش کھالی میں پہلے ای ڈی کو بھیجا گیا، پھر ای ڈی کی دوست بی جے پی کچھ میڈیا والوں کے ساتھ سندیش کھالی میں داخل ہوئی اور ہنگامہ کرنے لگی۔
ممتابنرجی، ترنمول کانگریس یا حکومت کے دیگر ترجمان ایسے واقعہ کو مسترد کرنے کی جتنی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی سچ سامنے آرہا ہے۔ ٹیلی ویژن کیمروں پر جتنی بڑی تعداد میں خواتین آکر آپ بیتی سنا رہی ہیں، ان سے کسی بھی حساس شخص کا دل دہل جائے گا۔ سیاسی پارٹیوں میں بھی صرف بی جے پی آواز اٹھاتی یا تحریک کرتی تو سمجھا جاتا کہ شاید الزامات میں اتنی سچائی نہیں ہے جتنی تشہیر کی جارہی ہے۔ بائیں بازو کی پارٹیاں اور کانگریس بھی سندیش کھالی پر ایک آواز ہیں۔ گورنر سی وی آنند بوس نے سندیش کھالی میں ہنگامہ خیز علاقوں کا دورہ کرکے کہا: ’’میں نے جو دیکھا وہ خوفناک، حیران کردینے والا اور ضمیر کو ہلا دینے والا تھا۔ یقین کرنا مشکل ہے کہ ربندرناتھ ٹیگور کی زمین پر ایسا ہوا۔‘‘ یہ بھی پہلی بار ہوگا جب گورنر نے راج بھون کا نمبر جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی خاتون کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں مسئلہ ہے تو راج بھون میں پناہ لے سکتی ہیں۔ انہیں انصاف ضرور ملے گا۔
معاملہ سنگین نہیں ہوتا تو کلکتہ ہائی کورٹ اس کا خود نوٹس نہیں لیتا۔ ہائی کورٹ دو مختلف معاملات کی سماعت کررہا ہے۔ پہلا مقامی لوگوں کی زمین ہڑپنے کا ہے اور دوسرا مقامی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا۔ لیکن پولیس انتظامیہ کا رویہ دیکھئے تو واضح ہوجائے گا کہ سندیش کھالی اسکینڈل کی صحیح طریقہ سے جانچ اور قانونی کارروائی پوری کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہوسکتا۔ شاہجہاں شیخ گرفتار نہیں ہوا ہے تو کیوں؟، معاملہ کے دو اہم ملزمان شیبوہاجرا اور اُتم سردار سمیت 18گرفتار ہوچکے ہیں۔ حالاں کہ آسانی سے گرفتار نہیں ہوئے۔ خواتین کے مظاہرے اور ہنگامہ کے بعد ترنمول کانگریس نے اُتم سردار کو شمالی24پرگنہ ضلع کونسل کے رکن اور ترنمول کے زونل صدر کے عہدہ سے 6سال کے لیے معطل کردیا۔ اس کے بعد ہی پولیس اسے گرفتار کرنے کی ہمت کرسکی۔
لوگ بتارہے ہیں کہ ترنمول کانگریس کے لوگ گھر گھر جاکر دیکھتے تھے اور جس گھر میں خوبصورت لڑکیاں یا عورتیں ہوتیں انہیں بلا لیا جاتا تھا یا اُٹھا کر لے جایا جاتا تھا۔ پارٹی دفتر میں بھی ان کا جنسی استحصال کیا جاتا تھا۔ 5جنوری کو جب ای ڈی کے ذریعہ راشن گھپلے سے وابستہ معاملہ میں شاہجہاں شیخ کی سندیش کھالی واقع رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران بڑی تعداد میں لوگوں نے ای ڈی کی ٹیم کے ساتھ سینٹرل آرمڈ پولیس فورس کے جوانوں پر حملے کردیے اور شہر سے تقریباً 74کلومیٹر دور گاؤں سے بھاگنے تک مارپیٹ کی۔ شاہجہاں کے فرار ہونے کی خبر سے لوگوں کی ہمت بڑھی اور وہ سڑکوں پر اُتر کر مخالفت کرنے لگے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ حقیقتاً 5جنوری کو ہوئے حملوں کے 33دنوں بعد 7فروری کو سندیش کھالی میں پھر ہنگامہ ہوا۔
مرکز کے ذریعہ بنگال کو بقایا فنڈ سے محروم کرنے کا الزام لگاکر ترنمول نے سندیش کھالی کے تریموہانی بازار میں قبائلی برادری کے ایک طبقہ کے ساتھ ایک ریلی نکالی تھی۔ اس میں شیخ شاہجہاں کی حمایت میں نعرہ لگانے کے بعد ہی ہنگامہ شروع ہوا؟ اور لوگ ترنمول کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ ناراض خواتین نے شیبوہاجرا کے کھیت اور پولیٹری فارم میں بھی آگ لگادی۔ لوگ بتارہے ہیں کہ پولیٹری فارم گاؤں والوں کی زمین چھین کر غیرقانونی طریقہ سے بنایا گیا تھا۔
ممتابنرجی نے اسمبلی میں بولتے ہوئے کہا کہ سندیش کھالی آر ایس ایس کا گڑھ ہے۔ وہاں پہلے بھی فسادات ہوئے تھے۔ کیا آر ایس ایس نے وہاں شاہجہاں شیخ اور ترنمول کے لوگوں کو اقتدار کی طاقت کی بدولت زمین ہڑپنے اور خواتین کے مکروہ جنسی استحصال کے لیے راستہ تیار کیا؟ وہاں جاکر کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ 24پرگنہ کا سندیش کھالی ہی نہیں آس پاس بنگلہ سے ملحق سرحدی علاقہ میں بڑی آبادی ہونے کے باوجود درج فہرست ذات کے لوگ کس طرح کے حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ سندیش کھالی ایک درجن سے زیادہ ان اسمبلیوں کی فہرست میں ہے جو ہند-بنگلہ دیش سے لگا ہے جہاں دراندازوں کی تعداد ہمیشہ رہی ہے۔ علاقہ کے جرائم کا تجزیہ کریں تو ان میں گائے کی اسمگلنگ سے لے کر منشیات اور ہتھیاروں کے ساتھ انسانی فروخت کے کاروبار شامل ہیں اور ان میں ایک برادری کے لوگ سب سے زیادہ ملزم ہیں۔
صحیح ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں وہاں کے لوگوں کا آر ایس ایس کی جانب کشش میں اضافہ ہوا ہے تو اس لیے کہ حکومت انہیں تحفظ دینے میں کامیاب نہیں رہی۔ لیکن آر ایس ایس کارکنان کو بھی شاہجہاں جیسے شہ زوروں کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پولیس انتظامیہ انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ خواتین کی عصمت دری اور ہراسانی کے واقعات کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ آر ایس ایس کارکنان کو بھی حملوں، قتلوں اور مقدموں کا شکار ہونا پڑا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ 2007میں وہاں زبردست فساد ہوا تھا جس میں بارڈر سیکورٹی فورس کو بلانا پڑا تھا۔ اس میں بھی زیادہ تر ملزم ایک ہی برادری کے تھے جن میں درانداز بھی شامل تھے۔ بہرحال تشدد کے واقعات کی جانچ کے لیے ڈی آئی جی سطح کی ایک خاتون افسر کی قیادت میں 10رکنی ٹیم کی تشکیل کی ہے۔ مگر پولیس کہہ رہی ہے کہ اسے صرف چار شکایتیں ملیں جن میں عصمت دری کا الزام ہے ہی نہیں۔ اس کے بعد پولیس انتظامیہ سے کوئی کیا امید کرسکتا ہے۔ پولیس محاصرہ کی وجہ سے سندیش کھالی میں کسی کے لیے بھی داخل ہونا ممکن نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں تک کو وہاں جانے کے لیے عدالت کا سہارا لینا پڑا ہے اور وہ بھی محدود علاقہ میں جاپارہے ہیں۔ پولیس کے لیے اس سے شرمناک کیا ہوسکتا ہے کہ شاہجہاں آج تک قانون کے شکنجہ سے باہر ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا اسے تحفظ مل رہا ہے؟ یہ طویل عوامی جدوجہد کا موضوع بن چکا ہے۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS