کیا ہوگا آگے : زین شمسی

0

زین شمسی

ہوا کچھ یوں کہ ایک شیر کو ایک شیرنی کے ساتھ باڑے میں رکھ دیا گیا۔ محکمہ جنگلات نے ان دونوں جانوروں کو اڈیشہ کے جنگل کے سفاری سے لا کر مغربی بنگال کے ایک باڑے میں بند کر دیا۔ ایک بہت ہی معمولی بات تھی، مگر وشو ہندو پریشد نے اسے ہندوؤں کا اپمان سمجھا اور معاملہ کو کورٹ تک کھینچ لے گئے۔ حیرت ہورہی ہوگی مگر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے، کیونکہ شیر کا نام اکبر تھا اور شیرنی کا نام سیتا۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سیتا اکبر کے ساتھ ایک پنجرے میں رات گزارے۔ یہ تو سراسر لوجہاد کا معاملہ ہے اور لوجہاد کا اگر کوئی بھی معاملہ ہوگا تو عدالت ایسے مقدموں کو ضرور سماعت کے لیے فہرست بند کرے گی اور یہ معاملہ تو بہت زیادہ سنگین تھا کہ رام کے عالیشان مندر کے عہد میں سیتاکو ایک ایسے نام اکبر کے ساتھ باندھ دیا جائے جس کے جد امجد بابر تھے۔معاملہ سنگین ہوگیا اور محکمہ جنگلات پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے دانستہ طور پر شیرنی کا نام سیتا رکھا۔ محکمہ جنگلات نے ثبوت کے طور پر کاغذات پیش کیے کہ باڑے میں لانے سے پہلے ہی دونوں کا نام رکھا جا چکا تھا، لیکن آستھا کے دورمیں ثبوت کوکون پوچھتا ہے؟
ایک معاملہ میں تو مزہ ہی آگیا جب ایک کتے نے کسی کوکاٹا اور کتا مسلمان کا بتا کر فسادات کی نوبت پیدا کر دی۔ تحقیق شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ نہیںکتا ہندو دھرم کے ماننے والوں کا ہی تھا۔ اس لیے کاٹا تو کاٹا۔ انجکشن لگایا گیا اور بات ختم۔ ہاں افسوس ضرور ہوا کہ کاش کتا مسلمانوں کا ہوتا۔ مگر قسمت خراب تھی کہ یہ سالا کتا ہندو کا ہی نکلا۔
ہماری چھت پر ہنومان یعنی بڑا والا لنگور خوب اچھل کود کرتا ہے۔ آنگن میں گملے میں اگائی ہوئی سبزیاں اور زمین پر لگایا گیاکیلا اور پپیتا کا پیڑ ہنومان کچھ ہی پل میں چٹ کر جاتا ہے۔ کوئی کچھ بول ہی نہیں سکتا کیوں کہ ہنومان جی کو کوئی کیسے کچھ بھی بول سکتا ہے۔ پڑوسی کا مکان چونکہ ہندو کا ہے اس لیے لنگور کا استقبال لاٹھی ڈنڈے سے ہوتا۔ مجال نہیں کہ ہنومان جی اس کی چھت پر بکھرے ہوئے گیہوں کے ایک دانے کو ہاتھ لگا سکیں۔مگر ہم اگر انہیں لاٹھی ڈنڈے سے ہنکائیں گے تو یہ آستھا کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ اسی لیے لنگوروں کو بھی اس بات کا شدید طور سے احساس ہوگیا ہے کہ بھارت ہندوراشٹر بن چکا ہے اور ہنومان جی کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ اس ہندوراشٹر میں کس چھت سے انہیں کھانا ملے گا اور کس چھت پر ان کا حق ہوچکا ہے۔
سرسوتی پوجا ہی ایک ایسی پوجا ہوتی تھی جو اسکولوں اور گلی نکڑوں پر بچے اور بڑے بھی جوش و خروش سے منایا کرتے تھے۔ مورتی کے بغل میں کتابیں رکھ دیا کرتے تھے کیونکہ وہ ودیا کی دیوی ہیں اور ان کے ماننے والے ان سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ انہیں علم سے مالا مال کرے گی، مگر اب یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سرسوتی دیوی کو گنگاپرواہ کے دوران جے شری رام کے نعرے سننے پڑتے ہیں۔ ان کے چہرے پر بکھری ہوئی مسکان نہ جانے کیا کہتی ہے مگر ایسا منظر پہلے کبھی نہیں تھا۔ کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ ودیا کی دیوی سرسوتی کے تہوار میں فسادات پھٹ پڑے، اس مرتبہ بہار کے کئی اضلاع میں فسادات ہوگئے۔ میڈیا یہ بتانے میں مصروف رہا کہ کیسے کس نے کہاں پتھر بازی کی۔ وہ یہ چیختا رہا کہ آخر ہندو دھرم کی دیوی دیوتا پر پتھر کیوں برسائے جاتے ہیں؟ مگر وہ کبھی یہ نہیں بتاتا کہ وسرجن کے دوران کس طرح کے نفرتی نعرے آسمان میں اچھالے جاتے ہیں، خاص کر وہاں پر جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے۔
اس دور میں آستھا کا معاملہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ گنگا کو ماں بلانے والے لوگ گنگا میں چاہے کتنا بھی کچرا پھینک دیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گائے کو ماں بلانے والے لوگ، اس پر جان تک لے لینے والے لوگ سڑکوں پر پالیتھن کھا تی ہوئی گایوں کو یوں نظر انداز کر جاتے ہیں کہ جیسے ان سے ان کا کوئی رشتہ ہی نہیں ہے، مگر کوئی مسلمان اگر اسے دودھ کے کاروبار کے لیے کہیں لے جا رہا ہے تو وہ گئوکشی کا ہی ارادہ رکھتا ہے۔ عجیب سنک پیدا ہو گئی ہے۔ کوئی کالج یا یونیورسٹی کے کسی کونے میں نماز پڑھ لے تو ہنگامہ یقینی ہے اور یونیورسٹی اور کالجوں میں کسی پروگرام کا آغاز پوجا سے ہو تو یہ بھارتیہ کلچر ہے۔دو منٹ کی اذان فضائی آلودگی کا سبب بن رہی ہے اور36گھنٹے مسلسل مائک پر بھجن آستھا کا سوال ہے۔
دراصل اس بات کو سمجھنا اور سمجھانا بہت مشکل ہے کہ آخر نفرت کے کاروبار سے کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہوتا ہے، مگر اسی بات کو سمجھنا اور سمجھانا بہت آسان بھی ہے اور اسے لکھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔مگر سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ نئی نسل کس سوچ کے ساتھ بڑی ہو رہی ہے۔ نئی نسل اس طرح کے ماحول سے کیا سیکھ رہی ہے۔ نئی نسل کو کس طرح سے سچائی سے، تاریخ سے اور کتابوں سے دور رکھا جا رہا ہے۔ نئی نسل آج کی نفرتی سیاست کے ساتھ جوان ہورہی ہے۔یہاں تک کہ لڑکیوں میں بھی ایک دوسرے کی کمیونٹی کے خلاف نفرت نظر آنے لگی۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے آستھا کے نام پر لڑنے لگے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں اس کا رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ کیا دیش غیرمعلوماتی دور میں داخل ہوچکاہے۔ کیا یہاں خود کو آگے بڑھانے کے لیے دوسروں کو نیچا دکھانا لازمی امر ہوگیا ہے۔ کیا اب ہم جانوروں کو بھی ہندو اور مسلمان کی نظر سے دیکھنے کے قائل ہوگئے ہیں۔ ایک سوال منھ اٹھائے کھڑا ہے کہ آگے کا ہندوستان کیسا ہوگا؟اگر ہم ترقی کر بھی لیتے ہیں تو کیا ایسی ترقی ہمیں دنیا میں وشو گرو کا درجہ دلاسکے گی جہاں نفرت کی پرورش ہو۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS