خواجہ عبدالمنتقم
بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعدسات دہائیاں گزر جانے کے باوجود اور وہ بھی جب ہمیں عالمی پیمانے پر ایک بالغ معیاری جمہور یت اور بالغ قوم کا درجہ حاصل ہوچکا ہے، ہم آئین کی سیکولر اور سماجوادی نوعیت پر محض تبادلۂ خیال ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی گرما گرم بحث میں مبتلا ہو جاتے ہیںجبکہ بار بار سپریم کورٹ کے روبرو اور مختلف فورموں پر یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ یہ دونوں اصطلاحات کیوں شامل کی گئی تھیں۔ اب پھر ان اصطلاحات کے تمہید سے اخراج کا معاملہ سپریم کورٹ کے روبرو زیر بحث ہے۔یاد رہے کہ آئین کی تمہید آئین کی اغراض و غایت کی واضح طور پر عکاسی کرتی ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے سامنے جو سب سے پیچیدہ قانونی سوال ہے، وہ یہ ہے کہ اگر ان اصطلاحات کو خارج کیا جاتا ہے تو تمہید کے آخر میں جو درج ذیل جملہ شامل کیا گیا ہے اوراس میں جو تاریخ دی گئی ہے ،اس کا کیا ہوگا؟
’ہم، بھارت کے عوام،بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی سیکولر عوامی جمہوریہ بنانے کے لیے۔۔۔ اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج مورخہ26 نومبر،1949ء (متی مارگ شیرش شُکلا سپتمی، سموت2006وکرمی)کو ذریعہ ہٰذا اس آئین کو اختیار کرتے ہیں، وضع کرتے ہیں اور اپنے آپ پر نافذ کرتے ہیں۔
ویسے تو یہ سوال اس وقت بھی اٹھ سکتا تھا، جب1976 میں سیکولر اور سوشلسٹ(سماجوادی) اصطلاحات کو آئین کی تمہید میں شامل کیا گیا تھا۔ان اصطلاحات کو آئین کی تمہید سے اخراج کا مدعا دراصل موضوع بحث ہونا ہی نہیں چاہیے۔ ضرورت تو اس بات پر غور کرنے کی ہے کہ سیکولرازم کے اس تصور کو مکمل طور پر کس طرح عملی جامہ پہنایا جائے اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب جسے ہم نے آئین کی دفعہ51الف میں ’ملی جلی ثقافت‘ کا نام دیا ہے اور جو ہزارہا سال گزر جانے کے باوجود تاہنوز بقید حیات ہے، اسے کس طرح زندہ رکھا جائے۔ اس کے بغیر ’ایک بھارت اور شریشٹھ بھارت‘ کا سپنا کبھی ساکار نہیںہوسکتا۔ یہ سپنا ہربھارتی کا ہے۔ یہی سپنا گاندھی، نہرو ، ابوالکلام آزاد اور ہمارے دیگر مجاہدین آزادی کا بھی تھا۔ خود مردآہن سردار پٹیل نے آزادی کے بعد لکھنؤ میں منعقد اجلاس میں کہا تھا: ’ہندوستان ہم سب کا ملک ہے۔ ہم اس میں ایک ساتھ تیریں گے اور ایک ساتھ ڈوبیں گے یعنی ساتھ جئیںگے اور ساتھ مریںگے۔‘
آئیے اب اس بات پر غور کریں کہ ان اصطلاحات کو اتنی تاخیر سے کیوں شامل کیا گیا۔ اس ترمیمی قانون سے متعلق بل کے غرض و غایت کے بیان میں صاف طور پر یہ بات کہی گئی تھی کہ چونکہ کچھ عوامل اور مفاد پرست لوگ اپنے ذاتی اغراض کی خاطر عام فلاحی اقدامات کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں اور یہ کہ آئین کو زندہ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بتدریج آگے بڑھتا رہے اور اگر آئین کے اس تدریجی سفر میں رکاوٹ آتی ہے تو یہ خدشہ پیدا ہو جاتاہے کہ کہیں آئین کمزور نہ پڑجائے۔ اگرچہ اس بیان میں ہمارے جمہوری اداروں کی کارکردگی کو سراہا گیا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ متذکرہ بالا مفاد پرست افراد کی جانب بھی اشارہ کیا گیا تھا۔
جہاں تک آئین میںلفظ سوشلسٹ یعنی سماجوادی شامل کرنے کی بات ہے، اس اصلاح کو اس نیت سے آئین میں شامل کیا گیا تھا کہ سب کو سماجی انصاف ملے۔ خود معمار دستور ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ ہمیں جو آزادی حاصل ہوئی ہے، وہ آخر کس لیے ہے؟ ڈاکٹرامبیڈکر نے25نومبر، 1949 کو یعنی آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ آئین کے adopt کرنے سے صرف ایک دن قبل آئین کے مسودہ پر بحث کے اختتام کے بعد آئین ساز اسمبلی میں اپنی آخری تقریر میں یہ کہا تھا اور صحیح ہی کہا تھا کہ سیاسی جمہوریت کو بغیر سماجی جمہوریت کے( یعنی ایسی جمہوریت جس کی social base نہ ہو) کبھی استحکام نصیب نہیں ہوسکتا۔ خود ہماری سپریم کورٹ بپن چندرا جے دیوان بنام ریاست گجر ات والے معاملے (1996 (3)گجرات لا رپورٹر 92 (ایس سی) میںیہ بات کہہ چکی ہے کہ سماجی انصاف کا قطعی مفہوم کچھ بھی ہو مگر اس میں کمز ور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو انسان سمجھتے ہوئے ان کی ضروریات کا اعتراف و قدر شناسی یقینی طور پر شامل ہے۔
ہندوستانی پس منظر میںسیکولرازم کی بنیادد و اصولوں پر ہے۔ ایک تو یہ کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے یا مختلف عقائد میں یقین رکھنے والے افراد قانون کی نظر میں برابر ہیں اور ان سب کے ساتھ برابر کا برتاؤ کیا جانا چاہیے اور کسی بھی طرح کا امتیاز نہیں برتا جانا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ کچھ ہاتھوں میں تو رنگ حنا ہو توکچھ میں صرف لکیریں۔ ہماری عدلیہ خصوصاً سپریم کورٹ کے روبرو سیکولرازم کے سلسلے میں دائر کیے گئے مقدمات کی ایک طویل فہرست ہے جو سردار طاہرالدین سیدنا صاحب بنام ریاست بمبئی(اے آئی آر 1962 ایس سی853) سے شروع ہوکرتاہنوز جاری ہے۔کیشوا نند بھارتی بنام ریاست کیرالہ (اے آئی آر 1973ایس سی1461)، اندرا گاندھی بنام راج نرائن(اے آئی آر 1975ایس سی 2299)، منروا ملز لمیٹڈ بنام یونین آف انڈیا (اے آئی آر 1980ایس سی1789)، ایس آر بمّئی بنام یونین آف انڈیا (اے آئی آر1994ایس سی1918) ودیگر معاملوں میں سپریم کورٹ اس بات کی وضاحت کر چکی ہے کہ سیکولرازم آئین کے بنیادی ڈھانچے کا جزء لاینفک ہے اور اس بنیادی ڈھانچے کو نہیں بدلا جاسکتا۔ دیگر معاملات میں بھی جن میں سیکولرازم کی اصطلاح آئین میں واضح نہ ہونے کی بات کہی گئی ہے، ان میں بھی آئین میں سیکولرازم کے تصور کو نکارا نہیں گیا ہے۔ یہاں تک کہ جن فیصلوں میں ہندوتو اور ہندوازم کی بات کہی گئی ہے، ان میں بھی اس اصطلاح کو نکارا نہیں گیا ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ ان میں ہندو طرز زندگی یا ’سرودھرم سنبھاؤ‘ اور ’دھرم‘ جیسے تصورات کا حوالہ ضرور دیا گیا ہے مگر کسی بھی اصطلاح کو سیکولرازم سے کسی بھی طرح کے ٹکراؤ کا سبب نہیں مانا ہے۔
اگرچہ 1976سے قبل سیکولرازم کا تصور تحریری طور پر آئین کا حصہ نہیں تھا لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آئین میں اس سے قبل سیکولرازم کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ ہمیں اس بات کا اشارہ مارچ 1931میں کراچی میں منعقد انڈین نیشنل کانگریس کے 45ویں اجلاس میں ’بنیادی حقوق اور اقتصادی پروگرام‘ عنوان کے تحت منظور کی گئی اس تجویز کی مد2 میں بعنوان ’حکومت کی جانب سے مذہبی غیر جانبداری (Religious Neutrality) ‘سے ملتا ہے۔ یاد رہے کہ اس تجویز کی بنیاد پر ہی 13دسمبر، 1946کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے آئین ساز اسمبلی میں ایک تجویز جسے تجویز اغراض (Objectives Resolution) کہا جاتا ہے، پیش کی تھی۔ اس تجویز کو اتفاق رائے سے آئین ساز اسمبلی نے 22جنوری، 1947کو دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے ہوئے منظور کرلیا تھا کہ آئین وضع کرتے وقت متذکرہ بالا دونوں تجاویز میں شامل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اور ایسا کیا بھی گیا۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]