عبدالغفار صدیقی
ہندوستان میں مسلمان گزشتہ 1300سال سے رہ رہے ہیں ۔ایک طویل زمانے تک وہ حکمراں رہے ،برطانوی عہد میں وہ اقتدار کو بچانے کی جدو جہد کرتے رہے ۔اس جنگ میں سو سال سے زائد عرصہ تک وہ تنہا رہے ،اس لیے کہ دوسری قوموں کے نزدیک یہ مغل حکومت کو بچانے کی جدو جہد تھی ۔دوسری اقوام اس تحریک میں اس وقت شامل ہوئیں جب انھیں یہ احساس ہواکہ شاید انھیں نہ صرف آزادی مل جائے گی بلکہ ملک چلانے کے اختیارات میں حصہ داری بھی نصیب ہوگی ۔ان کے نزدیک مسلم دور حکومت بھی غلامی کا دور تھا ۔ اسی سوچ نے ان میں سے بعض دانشوروں کو انگریزوں کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا تھا ۔تاریخ میں اس بات کے بھی شواہد ہیں کہ بعض اہل وطن نے جنگ آزادی کی مخالفت صرف اس اندیشہ کے تحت کی تھی کہ کہیں پھر سے مسلمان حکمراں نہ بن جائیں ۔ان کا ایک طبقہ یہ چاہتا تھا کہ آزاد بھارت میں مسلمانوں کا کوئی عمل دخل نہ ہو،اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس طبقہ نے تقسیم وطن کی درپردہ حمایت ہی نہیں بلکہ سازش کی تھی ۔ تقسیم وطن کے بعد اس طبقہ کی جانب سے علی الاعلان اس بات کو دہرایا گیا کہ ’’ مسلمان اپنا حصہ لے چکے ہیں ،اس لیے بھارت میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے ۔‘‘یہی وہ طبقہ ہے جو آج بھی بھارتی مسلمانوں کو پاکستان جانے کی دھمکیاں دیتا ہے۔اس طبقہ کی سوچ اگرچہ منفی تھی اوراب بھی ہے ،لیکن فطری ہے ۔اس کی جگہ شاید مسلمان بھی ہوتے تو یہی سوچتے ۔
مگراسے اس طبقہ کی بدقسمتی کہیے یا مسلمانوں کی خوش قسمتی کہ آزادی اور تقسیم کے بعد بھارت کی پارلیمان نے جو طرز حکومت منتخب کیا وہ ’’جمہوری ‘‘ تھااور جو آئین مرتب کیا اس میں بھارت کے شہری ہونے کے ناطے سب کو کچھ مساوی بنیادی حقوق حاصل تھے اور ہیں ۔یہ نظام اور یہ آئین اول روز سے ہی اس طبقہ کے نشانہ پر رہا ۔ ایک عرصہ تک اس نے بھارتی ترنگے کو ہاتھ نہیں لگایا ،اس کو اپنی تنظیموں کے دفاتر پر نہیں لہرایا ۔لیکن رفتہ رفتہ اس کی سمجھ میں آگیا کہ اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے جمہوریت کا راگ الاپنا ہوگا اور ترنگے کو سلامی دینی ہوگی اور اس نے ایسا کیا جس کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں ہے۔
مسلمان پدرم سلطان بودکے نعرے میں اسی طرح مست رہے جس طرح سلطان ’’ ہنوز دلی دوراست‘‘ میں مست تھا۔بھارتی مسلمان آزادی کو ایک نعمت سمجھ رہے تھے ۔ان کے نزدیک نظام مصطفیٰ کے باالمقابل جمہوریت عین اسلام تھی ،اسی لیے وہ آج بھی اپنے اس فیصلہ پر فخر کرتے ہیں ،کہ ہم نے بائی چوائس نظام مصطفیٰ کو ٹھکراکر بھارتی جمہوریت کو پسند کیا ہے۔بلاشبہ بھارت کاآئین تمام غیر اسلامی آئین میں سب سے اچھا ہے ۔اس میں ایک شہری کو زبان و بیان ،اظہار دین ،تبلیغ دین و مذہب اور اپنی پسند کے مذہب کو اپنانے کی آزادی حاصل ہے ۔لیکن کسی بھی جمہوری نظام میں یہ آزادی اکثریت کے رحم و کرم پر منحصر رہتی ہے ۔جس طرح پاکستان میں غیر مسلموں کی آزادی وہاں کی اکثریت کے رحم و کرم پر منحصر ہے ۔سنا ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد وہاں درجنوں مندر منہدم کردیے گئے تھے ۔ظاہر ہے مندروں کے انہدام کو کسی بھی طرح درست نہیں کہا جاسکتا۔
آج اسی طبقہ کے ہاتھ میں زمام حکومت ہے جس کے نزدیک مسلم دور حکومت ان کے لیے غلامی کا دور تھااور پاکستان بن جانے کے بعد بھارتی مسلمانوں کا بھارت میں کوئی حصہ نہیں تھا،جس کا نظریہ یہ ہے کہ بھارتی آئین کی جگہ منوسمرتی کا نفاذ ہونا چاہئے ۔اس لیے وہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے کی طرف رواں دواں ہے اور کیوں نہ ہو ؟یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے ۔اگر مسلمان اپنے مذہب سے سیاست کو نکال چکے ہیں تو کیا ہوا۔یہودیوں ،عیسائیوں اور اہل ہنود نے تو ایسا نہیں کیا ۔ عظیم تر اسرائیل کے قیام کے لیے یہودی سینکڑوں سال سے جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں ،عیسائی اپنے اثرو رسوخ کو قائم کرنے کے لیے تگ و دو کررہے ہیں تو ہمارے برادران وطن رام راجیہ کے قیام کے لیے کوششیں کیوں نہ کریں ؟
آپ کے سامنے ایک پوری قوم جو ان گنت خدائوں میں تقسیم تھی ،ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئی ،جو ان پڑھ تھی تعلیم یافتہ ہوگئی ،آپ تیتر بٹیر لڑاتے رہے ۔آج بھی کبوتر پالنے اور لڑانے کا شوق کون کرتا ہے ؟ذرا اپنے آس پاس جائزہ لے لیجیے ۔دوسرے لوگ اپنے بچوں کو کمپیوٹر دلوائیں اور آپ موٹر سائیکل ۔دوسری قوم دال اور سبزی پر بھی خوش ہو اور آپ گوشت کے بغیر حلق میں لقمہ نہ اتاریں ،وہ اسکول کھولیں اور آپ ایک سے ایک شاندار ریسٹورینٹ ۔ان کے ہر شہر میں تعلیمی و تکنیکی ادارے مشہور ہوں اور آپ کے یہاں دہلی کی نہاری ،میرٹھ کا حلیم ،مظفر نگر کی تہری ،لکھنو کے ٹنڈے کباب ،حیدرآباد اور مرادآباد کی بریانی ۔
وہ متحد ہوتے رہے اور آپ لڑتے رہے۔ آپ نے مدارس تقسیم کرلیے ،جماعتوں کو بانٹ لیا۔مساجد پر اجارہ داری قائم کرلی ،اس کے بعد بھی توبہ کی نصیحت آپ عوام کو فرمارہے ہیں ۔کیا قوموں پر عذاب عوام کے گناہوں کی وجہ سے آتا ہے یا رہنمائوں کے غلط فیصلوں کے باعث ،مغربی اترپردیش کے موقر دینی اداروں کی تقسیم کسی عوامی انتشار کا نتیجہ تھی یا ذمہ داران مدارس کے اختلافات تقسیم کے ذمہ دار تھے ؟میں سمجھتا ہوں کہ عوام کے بجائے ہمارے مذہبی اور ملی رہنمائوں کو توبہ کرنا چاہئے ۔توبہ کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ کان پکڑ کر اللہ میری توبہ کا ورد کرلیا جائے ۔بلکہ توبہ کا مطلب ہے کہ ماضی کی وہ غلطیاں جن کی تلافی ممکن ہے ان کی تلافی کی جائے ۔اگر ہمارے بزرگوں نے کسی وجہ سے کسی فرد یا جماعت کو گمراہ قرار دے دیا تھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ اب اس غلطی کی اصلاح کی جانی چاہئے تویہ قدم بلا کسی جھجک کے اٹھانا چاہئے ،بڑوں کی آراء اور فتاوے کوئی آیات قرآن اور فرامین رسولؐ نہیں ہیںکہ ان پر نظر ثانی نہ کی جاسکے۔ذرا آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو صدق دل سے گلے لگائیے ۔جس طرح ہمت کرکے مولانا توقیر رضا دارالعلوم دیوبند پہنچے تھے کبھی حضرت شیخ بھی بریلی کو رونق بخشیں ۔اگر مسلم پرسنل لاء بورڈ میںشامل جماعتیں ’’ مسلمان‘‘ ہیں تو ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھ کر عملی اتحاد کا مظاہرہ کریں ،اپنے مواعظ حسنہ میں معتقدین کو ایک دوسرے کی مسجدوں میں جانے اور ان کے مسلک کا احترام کرنے کی تلقین کریں ۔اس وقت بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے اسے روکنے کا ایک ہی فارمولہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کرلیں ۔
اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ بل پاس ہوگیا ظاہر ہے نافذ بھی ہوجائے گا۔اب آپ فرماتے ہیں کہ ’’ شریعت کے خلاف کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘ بلا شبہ قبول بھی نہیں کی جانی چاہئے ۔لیکن شریعت صرف طاقوں میں سجانے کے لیے ہے ؟یا عمل کرنے کے لیے ۔آخر جب اسلام کا عائلی نظام سب سے بہتر ہے تومسلم معاشرہ بہتر نظر کیوں نہیں آتا؟بتائیے کتنے لوگ خواتین کو وراثت میں حق دے رہے ہیں ؟کتنے مسلمان خواتین کو خلع مانگنے پر بآسانی طلاق دے دیتے ہیں ؟کتنے مسلمانوں کو طلاق تفویض کا علم ہے؟ بتائیے غیر شرعی حلالہ پر آپ نے کیا سزا مقرر فرمائی ہے ؟ طلاق احسن کے ہوتے ہوئے طلاق بدعت پر کیوں عمل کرایا جارہا ہے؟اگر آپ واقعی اسلامی شریعت پر عمل کرتے اورخواتین کو ان کے حقوق عنایت فرمادیتے تو آپ کو ارتداد کا سیلاب نہ دیکھنا پڑتا بلکہ جوق درجوق وطنی بہنیں آغوش اسلام میں پناہ لے رہی ہوتیں ۔
مسلمان عام اقوام کی طرح کوئی قوم نہیں ہیں ۔’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ‘‘۔ یہ اپنے حقوق مانگنے اور ان کی بازیابی کی تحریک چلانے کے لیے برپا نہیں کی گئی ۔یہ نظام مصطفیٰ کو ٹھکرانے کے لیے نہیں بلکہ اس کے قیام کے لیے پیدا کی گئی ہے ،یہ لوگوں کو تقسیم کرنے اور بہتر فرقوں پر ناز کرنے کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کو ایک پرچم کے تحت جمع کرنے کے لیے اٹھائی گئی ہے ۔یہ امت دعوت ہے ۔اس کا مشن اللہ کی بندگی کرنا اور دوسروں کو اس کی دعوت دینا ہے ۔یہ محلات ،برج اور تاج محل بنانے کے لیے نہیں بلکہ بے آسرائوں کوچھت فراہم کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے ،یہ عہدوں اور مناصب کو ہڑپنے کے لیے نہیں بلکہ اس کوتاکید کی گئی ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپرد کردے۔یہ دنیا سے غربت اور جہالت دورکرنے کے لیے پیدا کی گئی ہے نہ کہ خود غربت و جہالت کے غار میں جانے کے لیے ۔
مسلمانوں کو طے کرنا ہے کہ انھیں بھارت میں کس طرح رہنا ہے ؟کیا وہ مسلمان بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں یا ارتداد کے سیلاب میں بہنا چاہتے ہیں۔ ابھی تو 1947کے ارتداد کا مداوا نہیں ہوسکا ہے ،آج بھی پنجاب میں کچھ نہ کچھ بوڑھی مسلمان خواتین سکھوں کے ساتھ ہیں اور ان کے بچوں کی دادی یا نانی کی حیثیت میں جی رہی ہیں ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ مسلمان بن کر رہیں تو اپنے نام کے ساتھ جو بہت سے لاحقے لگارکھے ہیں انھیں ہٹادیجیے ،کیوں کہ اللہ نے آپ کا نام صرف ’’ مسلم ‘‘ رکھاتھا ۔یہ حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی ،سنی ،وہابی ،چشتی،اور صابری کے لاحقے آپ نے لگالیے ہیں ۔آپ نماز چاہے جس طریقے پر پڑھیں مگر اسلام کی عائلی اور معاشرتی ،سماجی اور معاشی تعلیمات پر عمل کریں ،ان تعلیمات میں کسی طرح کا اختلاف بھی نہیںپایا جاتا۔اپنے گھروں ،گلی کوچوں کی صفائی سے کون روکتا ہے ؟سچ بولنا ،پورا تولنا، امانتیں واپس کرنا اوروعدوں کو وفا کرنا کیا شریعت کا حصہ نہیں ہے اور اس پر عمل کرنے پرکس حکومت نے پابندی لگارکھی ہے ۔تعلیم حاصل کرنے ،لوگوں کی مدد کرنے ،اسکول، کالج اور اسپتال بنوانے پر کیا اللہ خوش نہیں ہوتا ؟سادگی کے ساتھ شادی بیاہ کرنے میں کس کا اختلاف ہے ؟برادران وطن کے دکھ سکھ میں شریک ہونے ،ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے ،ان کے کمزوروں کی مدد کرنے میں کیا امر مانع ہے ؟آپ کاسہ گدائی ہاتھ سے پھینک دیجئے ۔پھر دیکھئے آپ کو عزت کس طرح حاصل ہوتی ہے؟آپ مکمل شریعت پر عمل کیجیے پھر دیکھئے کون آپ پر پابندی لگاتا ہے؟ ٭٭٭