7؍اکتوبر 2023کے واقعات نے مغربی ایشیا کا منظرنامہ بالکل پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ خطے میں قیام امن کی کوششوں کو ایسا جھٹکا لگا ہے کہ کوئی بھی ملک اس سے محفوظ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ 2011کے نام نہاد جمہوری بہاریہ سے جو عدم استحکام اور تشدد کے واقعات پیش آئے تھے ان پر کئی ملکوں نے قابو کرلیا تھا اورمختلف خطو ں میں کئی ممالک نے اپنے منقطع تعلقات اور منجمد روابط کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی۔ 2011نے سب سے زیادہ نقصان ان مسلم عرب ممالک میں کیا تھا جو سیاسی استحکام اور سماجی ترقی پر گامزن تھے۔ ان میں بدترین مثال تیونس، مصر،الجیریا، مراقش، سوڈان اوریمن وغیرہ کی ہے، مگر یمن کے معاملات نے سعودی عرب اوراس کے قرب وجوار کو کافی حد تک متاثر کیا تھا۔ یمن کی سیاسی اتھل پتھل نے سعودی عرب کے استحکام اور سلامتی کے عمل کو بے حد متاثر کیا تھا، مگر محمدبن سلمان کی دوراندیش قیادت نے بڑے پیمانے پر پالیسی میں تبدیلی کرکے اس خطے کو ایک بار پھر امن وامان کی طرف موڑنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔ دونوںملکوںنے سفارتی تعلقات بحال کئے اور ان دونوںملکوں کی پیروی کرتے ہوئے علاقے کے کئی متصادم ممالک نے اپنے ہمسایوں سے رشتے بنائے۔ سعودی عرب سے متصل یمن میں 2011سے ہی سیاسی اتھل پتھل دیکھی جارہی تھی اور وہاں پر حوثی قبائل نے حکمراں طبقے کے خلاف بغاوت کردی جس کا اثر سعودی عرب تک محسوس کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی عرب اوراس کے ہمنوائوں نے یمن میں مداخلت کی۔ سعودی عرب کو یہ لگتا تھا کہ یمن میں بدامنی کا اثر اس کی خودکی سلامتی پر پڑے گا اور ہوا بھی یہی۔ سعودی عرب کے کئی اثاثوں اور علاقوں میں مشتبہ حوثی باغیوںنے کارروائیاں کیں۔ مگر اس جھٹکے کو بھی سعودی عرب نے برداشت کیا۔ ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے ساتھ یمن میں برسرپیکار کئی ملکوںکی افواج مسلح ملیشیا اور گروپوں نے اقوام متحدہ کی قیادت والے مصالحتی مشن کے ذریعہ اس تصادم کو ختم کرنے اور یمن میں بحالی امن کی کاوشیں تیز کردیں۔ مگر غزہ کے اس بحران نے تمام کوششوں کو کمزورکیا ہے اورایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی قیادت والے نومولود اتحاد کی بحراحمر میں کارروائیوں کے بعد یمن میں قیام امن کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔ سعودی عرب نے اگرچہ امریکہ کی قیادت والے اس محاذ کی کارروائیوں کی حمایت کرنے سے انکار کیا ہے مگر بحرین کی کھلم کھلا یا درپردہ حمایت کی وجہ سے عرب اورمسلم دنیا میں بدگمانیاں بڑھی ہیں۔ بحرین خطے میں سعودی عرب کا حلیف سمجھا جاتا ہے۔ حوثی اپنے آپ کو فلسطینیوں کا ہمنوا بتا رہے ہیں۔ حوثی باغی مسلسل اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ بحراحمر سے اسرائیل کو جانے والی سپلائی کو موقوف کیا جائے گا اور جب تک غزہ میں اسرائیل اپنی فوجی کارروائی بند نہیں کرتا یہ صورت حال برقرارر ہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال کا اثر خطے سے گزرنے والے بحری جہازوں کی آمدورفت پر پڑا ہے۔ جس سے کئی ممالک میں غذائی اجناس، اشیائے ضروریہ کی سپلائی متاثرہوئی ہے۔ مگراس کے باوجود حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کارروائی جاری رکھیںگے۔ اس ردعمل سے دنیا کے بہت سے ممالک متاثرہوئے ہیں اوران کو بہت طویل راستہ طے کرکے مطلوبہ مقامات پر اپنی سپلائی پہنچانی پڑ رہی ہیں۔ ظاہرہے کہ اس طویل مسافت سے اخراجات میں اضافہ ہوگا اور وقت بھی برباد ہوگا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اسرائیل کو ملنے والی فوجی اورغیرفوجی مدد بحراحمر کی اس صورت حال سے متاثر نہ ہو۔ حوثی باغیوںکا الزام ہے کہ یہ پوری کارروائی امریکہ کی اسرائیل پروری کی وجہ سے ہورہی ہے۔ امریکہ کوچاہئے کہ وہ غزہ پر اسرائیلی کارروائی کورکوانے کی کوشش کرے۔ حوثی باغیوں کی ان کارروائیوں سے بہت سے ملکوںکو نقصان پہنچ رہا ہے مگر حوثی باغیوںکا دعویٰ ہے کہ وہ صرف انہی بحری جہازوں پر کارروائی کر رہے ہیں جوکہ اسرائیل کوجاتے ہیں، مگر ان حالات نے نہ صرف یہ کہ بحراحمر، بحراسود میں ہلچل پیدا کردی ہے بلکہ اس کا اثر پورے خطے کی امن اور بین الاقوامی تعلقات و معیشت پر واضح نظرآرہا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب اور حوثی باغیوںکے درمیان جومصالحت اورمذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ کافی حد تک رک گیا ہے۔ حوثی باغیوں کا الزام ہے کہ سعودی عرب اور یمن کی حکومت کی وجہ اور حمایت سے بین الاقوامی اتحاد اس قسم کی کارروائیاں کر رہا ہے۔ حوثی باغیوں نے قیام امن کے مذاکرات میں عدم دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یمن کی حکومت جس کو سعودی عرب کا حمایت حاصل ہے اس کو یہ موقع نظرآرہا ہے اور اس کو لگتا ہے کہ اس بحران میں حوثی باغی کمزورہوںگے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے یمن ہینس گرن برگ نے کہا ہے کہ اگرچہ حالات پہلے کے مقابلے میں زیادہ سازگار نہیں ہیں مگر حوثی کنٹرول والے خطوں میں سرکاری ملازمین کو دی جانے والی تنخواہ اور دیگر مراعات کو شروع کرانے کے لئے سعودی عرب کی امداد اور رقومات پر اتفاق برقرار ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ امریکہ نے حوثیوں کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دے کر اس پر کافی پابندیاں عائد کردی تھی بعدازاں ان پابندیوںکو جنوری 2021میں ہٹا دیا گیا تھا تاکہ خطے میں انسانی ہمدردی کے تحت کی جانے والی امداد کو متاثرہ افراد اورآبادیوںتک پہنچایا جاسکے جو اس بحران کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور تھے۔ بحراحمر میں اس بحران سے امریکہ کو اپنے نقطہ نظرمیں تبدیلی کرنے پر مجبورکیا ہے۔ یمن کی حکومت کے حوصلے بڑھے ہیں کیونکہ یمن کی حکومت کو سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اس حکومت کا اثرورسوخ حوثیوں کی بڑھتی طاقت کی وجہ سے کم ہوا ہے۔ یہاں تک کہ راجدھانی صنعا پر بھی حوثیوںکا کنٹرول ہے۔ اس پوری صورت حال کا سب سے برا اثر یمن کے عام لوگوں پر پڑے گا۔ غزہ، لبنان، مغربی کنارا اور پورا یمن اس بحران کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اگرچہ امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک لبنان کو اس آگ سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ لبنان اس صورت حال سے بچ پائے گا کیونکہ وہاں بھی اسرائیل اور ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے درمیان براہ راست تصادم ہے اور یہ تصادم روزبروز شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔
٭٭٭
لبنان کے بعد یمن بحران کے پیچیدہ ہونے کا اندیشہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS