آئینی عہدہ کا مذاق

0

ریاستوں میں مرکز کے نامزد گورنروں کا کردار ہمیشہ سے ہی تنازع کا سبب رہاہے۔ بعض گورنر اپنے متعینہ آئینی حدود کے اندر رہنا توہین سمجھ کر منتخب حکومتوں کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں تو بعض گورنر مرکز کے اشارے پرراج بھون کو سیاسی پارٹی کا دفتر بنائے رکھتے ہیں۔ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے روزمرہ کے کاموں میں مداخلت کرنا عین اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کچھ گورنر توایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی مطلق العنانی کی تاریخ رقم کی ہے۔ تمل ناڈو اور پنجاب کے گورنروں کا معاملہ تو اتنا طول پکڑا کہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا۔ مغربی بنگال میں نامزد گورنر کے ’ اقدامات‘ بھی سڑک چوراہوں پر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ گورنروں کی یہ مہم جوئی نہ صرف عہدہ کے وقار کو متاثر کرتی ہے بلکہ اس سے عہدہ کی موزونیت اور مناسبت پر سوال کھڑا ہوجاتا ہے۔ گورنروں کے اس متنازع کردار کے تصفیہ اوران کے کردار کے واضح تعین کیلئے وقفہ وقفہ سے کئی کمیشن بنائے گئے جن کی سفارشات پرغور و خوض کیلئے بھی کمیشن بنے۔مگر مرکز اور ریاستی حکومتوں کے مفاد میں ٹکرائو کی وجہ سے ان سفارشات پرغوروخوض کا کوئی نتیجہ نہیں برآمد ہوا۔ آج بھی گورنر اپنی من مانی اور غیرآئینی اقدامات کی وجہ سے ریاستوں، بالخصوص اپوزیشن کی حکمرانی والی ریاستوںکیلئے پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔مشرق میں مغربی بنگال تو جنوب میںتمل ناڈو کی منتخب حکومتیں خود کو گورنروں کے پنجہ آزار میں محسوس کررہی ہیں۔
مغربی بنگال کے گورنر ڈاکٹر سی وی آنند بوس راج بھون سے نکل کرریاستی حکومت کے کام کاج کا جائزہ لینے کیلئے اضلاع کے گل گشت پرنکل جاتے ہیں۔متعینہ آئینی حدود سے باہر سیاسی تنازعات اور امن و امان کے ریاستی مسئلہ میں مداخلت کرکے جہاں وہ ریاستی حکومت کے کام کاج میں رخنہ انداز ہورہے ہیں، وہیں منتخب حکومت کے عوامی مینڈیٹ پر بھی شب خون مارنے کیلئے کوشاں ہیں۔ حالیہ دنوں ان کا سندیش کھالی کا دورہ کچھ یہی اشارے کررہاہے۔گورنر سی وی آنند بوس پیر کے روز اپنی آبائی ریاست کیرالہ سے لوٹنے کے بعد راج بھون جانے کے بجائے شمالی24پرگنہ ضلع کے سندیش کھالی پہنچ گئے، جہاں ایک مقامی ترنمول لیڈرکے خلاف کئی دنوں سے خواتین احتجاج کررہی ہیں۔ان خواتین سے انہوں نے ملاقات کی اور پھر ملاقات کی روداد لے کر وہ دہلی کی جانب پرواز کرگئے۔ان کا یہ عمل بتارہاہے کہ وہ امن وامان کے مسئلہ کا حل نکالنے کے بجائے اسے حکمراں بی جے پی کیلئے سیاسی موقع کی شکل دینے میں کوشاں ہیں۔ اس سے قبل بھی انہوںنے کئی ایسے معاملات میں مداخلت کی جو ان کے دائرۂ کار سے باہر ہیں۔
ادھرتمل ناڈو میں گورنر آر این روی بھی کچھ ایسی مہم جوئی میں مصروف ہیں۔انہوں نے ریاست کی ڈی ایم کے حکومت کی طرف سے تیار کردہ خطبہ پڑھنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کے کئی حصوں میں ’ گمراہ کن دعوے اور حقائق‘ ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان اقتباسات کو پڑھنے سے گورنر کا خطاب ’آئینی مذاق‘ بن جاتا۔ اس آئینی فساد کو قوم پرستانہ مطالبے سے جوڑتے ہوئے انہوں نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ قومی ترانہ صرف خطاب کے آخر میں بجایا جاتا ہے، شروع میں نہیں۔گزشتہ سال بھی انہوں نے اسمبلی سے پاس کیے ہوئے دس سے زائد بل روک رکھے تھے جس پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔ اے آئی اے ڈی ایم کے وزرا پر مقدمہ چلانے کی منظوری، تمل ناڈو پبلک سروس کمیشن میں تقرریوں اور قیدیوں کی قبل از وقت رہائی سے متعلق ریاستی حکومت کے فیصلوں کے ساتھ بھی ان کا سلوک کچھ ایسا ہی رہاہے۔
گورنر بوس ہوں یا گورنرروی یہ دونوں ہی اپنے اختیارات اور آئینی حدود سے باہر نکل کرنہ صرف منتخب حکومت کو ملنے والے عوامی مینڈیٹ کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں بلکہ پارلیمانی جمہوریت میں گورنر کے آئینی عہدہ کا مذاق بنارہے ہیں۔مغربی بنگال میں امن و امان کا مسئلہ ریاستی حکومت کے دائرۂ کار میں آتا ہے۔اس کے باوجود وہ اپنی سرگرمی سے ایسے مسائل کو مرکز میں حکمراںبی جے پی کیلئے سیاسی موقع کی شکل دے رہے ہیں تو دوسری طرف تمل ناڈو میں گورنر آر این روی منتخب حکومت کے تیار کردہ خطاب کو پڑھنے سے انکار کرکے اپنے عہدہ کا ہی مذاق بنارہے ہیں۔
پارلیمانی جمہوریت میں گورنر کاکردار ادا کرنے والوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ ایک آئینی عہدہ پر بیٹھے ریاست کے آرائشی سربراہ ہیں۔ جب حکومتیں سیاسی جماعتیں چلاتی ہیں جو سیاسی پروگرام کی بنیاد پر انتخاب لڑتی ہیں اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی کامیابیوں کو، حقیقی یا مبالغہ آمیز، پالیسی بیانات میں بیان کرنے کی کوشش کریں۔ خطاب کے مواد کا جائزہ لینا گورنر کا نہیں بلکہ سیاسی اپوزیشن اور عوام کا کام ہے۔اسی طرح امن و امان قائم رکھنا اور ریاست کو اپنے ڈھب سے چلانا بھی گورنر کا نہیں بلکہ حکومتوں کا ہی کام ہے۔لیکن ہندوستان کے آئینی نظام کا لچیلاپن ہے کہ ملک میں گورنر کے عہدے پر فائز ہونے والے افراد مرکز میں حکمراں سیاسی جماعت کے نمائندے کے طور پر کام کرنے لگے ہیں اوراپنے سیاسی مخالفین کی ریاستی حکومتوں کو کمزور کرنا اور ان کے کام میں رکاوٹیں پیدا کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS