اسرائیل کی بڑھتی جارحیت اور لہولہان انسانیت

0

ایک طرف اسرائیل غزہ میں اپنی تباہ کن فوجی کارروائی کو روکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اور دوسری جانب وہ یہ بھی توقع کررہا ہے کہ مسلم دنیا اورانصاف پسند لوگ اس کو گلے لگائیں گے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ انٹونی بلینکن اسرائیل کا 7واں دورہ کرکے واپس گھر آگئے ہیں۔ وہ اپنی پروردہ ریاست کے بے لگام حکمراں بنجامن نیتن یاہو کو جنگ بندی کے لیے راضی نہیں کرپائے۔
انہوںنے آج شام ختم ہونے و الے اپنے دورے میں جب اسرائیل کے صدر ہرگوز سے ملاقات کی تو ان کا لہجہ غیر مصالحانہ نظرآیا ،اس سے قبل بنجامن نیتن یاہو نے حماس کی طرف سے جنگ بندی کی شرائط قبول کرنے سے انکارکردیا اور افواج کو حکم دیا کہ وہ رفح کی طرف پیش قدمی کی تیاری کریں۔ ظاہر ہے کہ رفح کی طرف پیش قدمی کا مطلب مصر سے ملی ہوئی سرحد میں وہی تباہ مچانا ہے جو غزہ کے دوسرے علاقے میں مچایا جا چکا ہے جس میں لا کھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر اور ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ محض چار ماہ کی قلیل مدت میں اسرائیل نے انسانیت کو ان صدمات سے دوچار کیا ہے جن کی نظیر نہیں ملتی۔ ظاہرہے کہ ایک چھوٹے سے نومولود ملک جس کی بہت بڑی آبادی یوروپ اور امریکہ وغیرہ سے بلا کر اسرائیل میں بسائی گئی ہے اس کی اتنی بساط نہیں ہوسکتی تھی اگر اس کے پاس امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی سرپرستی نہیں ہوتی۔ اس وقت غزہ میں ہاہا کار ہے اور خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور اسرائیل کے وزیراعظم یہ توقع کیے بیٹھے ہوئے ہیں کہ سعوی عرب ان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے گا۔ گزشتہ روز امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے ایک بیان سامنے آیا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اس قتل وغارت گیری کے باوجود سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ روابط استوار کرنے کے لیے راضی ہے۔ ایک امریکی ترجمان کربی نے ایک پریس کانفرنس میں اس قسم کی تاثر دینے کی کوشش کی تو سعودی عرب نے باقاعدہ ایک سخت بیان جاری کرکے واضح کردیا کہ جب تک اسرائیل آزاد فلسطینی ریاست قیام کے لیے راضی نہیں ہوجاتا تب تک اسرائیل کے ساتھ روابط کا قیام ممکن نہیں ہے۔ سعوی عرب کے دفتر خارجہ نے ایک طویل بیان جاری کرکے وضاحت کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں اور مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں، مگر پہلی شرط ہے کہ اسرائیل جنگ بندی شروع کرے۔
کئی حلقوں میں اس پورے تنازع پر بحث کہ وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کے مذاکرات جنگ بندی میں عدم دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اس لیے یہ سب ہورہا ہے کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ نتین یاہو جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ اس کی وجوہات بھی بالکل جگ ظاہر ہے۔ خانگی میدان میں نیتن یاہو کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا ایک محاذ جنگ بندی کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہے۔ ہر ہفتے کے آخری ایام میں اسرائیل میں بڑی شدت کے ساتھ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں ان مظاہرو ںمیں وہ یہودی خاندان میں شامل ہیں جن کے لواحقین کو حماس نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نتین یاہو کے اسی طرز عمل کی وجہ سے ان تمام ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے رشتے ختم ہوچکے ہیں جو مصالحتی کوششوں میں مصروف تھے۔ ان میں سب سے اہم نام مصر اور قطر کاہے۔ نیتن یاہو کے طرز عمل سے دونوں ملک ناراض ہیں اور انہوںنے ان کوششوں سے کنارہ کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب امریکی وزیر خارجہ بھی ہاتھ جھاڑ کر واپس اپنے ملک آگئے ہیں۔
یہ صورت حال اس خطے کو مزید تباہی میں مبتلا کرے گی۔ اس کا نقصان امریکہ کو ہوگا ۔ امریکہ کو اندازہ ہے کہ یہ جنگ صدر امریکہ جو بائیڈن کی مقبولیت اور انتخابات جیتنے کے امکانات کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS