2024 کے لوک سبھا انتخاب کا اب تک اعلان نہیں ہوا ہے لیکن اس کی تیاریاں شروع ہیں۔مختلف سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جیت -ہار کے امکانات و خدشات میں گھری ہوئی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں۔ اس بیچ رواں بجٹ اجلاس کے آغاز میں صدر جمہوریہ کے خطبہ کے بعد شکریہ کی تجویز کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا کہ ’ اب کی بار این ڈی اے 400کے پار‘۔وزیراعظم نے اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں اپنی 10سالہ حکومت کے دوران کیے گئے کئی کاموں کا ذکر کیا۔ دفعہ370کی منسوخی، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر وغیرہ جیسے متنازع معاملات کو بھی اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہوئے انہوں نے اپنے دور حکمرانی کوملک کا کامیاب ترین دور بتایا اور کہا کہ ہندوستان ہر محاذ پر فتح کے پرچم گاڑ رہاہے۔جوش خطابت میں وزیراعظم یہ بھی کہہ گئے کہ انتخابات کے بعد اپوزیشن لوک سبھا کی وزیٹرس گیلری میں نظرآئے گا۔
انتخاب کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن وزیراعظم کے ذریعہ دفعہ370کی منسوخی اور کشمیر کو سہ لخت کیے جانے کے فوائد بیان کرنے کے ٹھیک اگلے ہی دن جموںو کشمیر اور لداخ کے لوگوں کا اشتعال ابل کر سامنے آگیا اور لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ سڑکوں پر نکل آئے۔لداخ کے لوگوں نے عملاً یہ ثابت کردیا کہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 کو نافذ آرٹیکل 370 کو ہٹانا ہندوستانی حکومت کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے بھی لیہہ کے لوگوں نے ہڑتال کی تھی، یہ ہڑتال کسی سیاسی جماعت کے بینر تلے نہیں بلکہ وہاں کی سول سوسائٹی کے بینر تلے ہوئی جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوئے تھے۔
سابقہ ریاست جموں و کشمیر سے اس کے خصوصی آئینی حقوق چھین کرریاست کو دو الگ الگ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا تو اس وقت لداخ کو بھی مرکز کے زیرانتظام علاقہ بنا دیا گیا اور اسے کچھ دنوں میں ہی مکمل ریاست کا درجہ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا۔یہ وعدہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات اور 2020 کے لداخ ہل کونسل انتخابات کیلئے بی جے پی کے منشور کا بھی حصہ تھا لیکن ریاست کی حیثیت کھونے کے ساڑھے چار سال بعد بھی اس وعدے کے وفا ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔اس کی وجہ سے جموں و کشمیر اور لداخ تینوں حصوں کے شہری ناراض ہیں۔
لداخ اور جموں و کشمیر میں صورتحال ایک جیسی ہے۔ مرکزی حکومت نے دفعہ370کی منسوخی کے وقت جو سبز باغ دکھائے وہ نہ صرف دھوکہ ثابت ہوئے ہیں بلکہ تمام علاقوں میں مسائل بڑھ گئے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے، امن کی بحالی اور روزگار میں اضافے کے بلند و بانگ دعوے کی تکمیل کے بھی کوئی آثار نہیں نظرآرہے ہیں۔
اگرچہ مرکزی حکومت اور مقامی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہاں حالات معمول پر ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے، وہاں کے لوگوں میں سرزمین سے الگ تھلگ ہونے کا احساس شدت اختیار کر گیا ہے۔ خاص طور پر کشمیر اور لداخ کے لوگ خود کومحروم محسوس کر رہے ہیں۔کشمیر میں انتخابات کے انعقاد کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ لوگ پرامید تھے کہ حکومت 2023 کے آخر تک انتخابات کرائے گی تاکہ جمہوری عمل بحال ہو سکے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔لداخ کے لوگوں کوبھی یہی لگتا ہے کہ دہلی حکومت نے انہیں دھوکہ دیاہے۔ انہیں ان کی سیاسی اور معاشی طاقت سے محروم کر کے بے سہارا اور لاچار بنا دیا ہے۔ ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ان کی روزمرہ کی زندگی فوجی جوانوں کی سخت نگرانی میں گزررہی ہے۔جمہوری حقوق چھین کر ان پر باہر کے لوگوں کی حکمرانی مسلط کر دی گئی ہے۔ لداخ کے قدرتی اور معدنی وسائل کی لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ لداخ کی زمین اور وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے باہر کے لوگوں کو لانے کی سازش ہو رہی ہے۔
تینوں علاقوں کے لوگوں نے مختلف مواقع پر اور مختلف طریقوں سے دفعہ 370 کو ہٹانے کی مخالفت کی لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی لوگوں کی مخالفانہ رائے اور احتجاج کو کسی خاطر میںنہیں لائی۔ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے کشمیر بی جے پی اور اس کی بنیادی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کیلئے پہلے سے ہی مشق ستم بنا ہواتھا۔مبینہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اس کے ذریعے بی جے پی-سنگھ نے پولرائزیشن کو بڑھایااوراس کو ہندو مسلمانوںمیںتفرقہ کامستقل ہتھیار بنالیا۔
اپنی انتخابی جیت کیلئے لوگوں کے جمہوری حقوق کو کچل کر، فوجیوں کی نگرانی میں انہیں گھروں میں قید رکھنا اگر کامیابی ہے تو پھر وزیراعظم واقعی کامیاب ہیں لیکن مورخ ملک کے مقدر میں ناکامی ہی لکھے گا۔
[email protected]
کامیابی یاناکامی!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS