ڈاکٹر دھرمیندر پرتاپ سنگھ
بی جے پی حکومت کی دوسری مدت کا عبوری بجٹ پیش کردیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اس بار اپنی بجٹ تقریر میں ایک اہم تجویز پیش کی ہے۔ آبادی پرکنٹرول اور ڈیموگرافی پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے انہوں نے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی۔ تیزی سے آبادی میں اضافے اور آبادیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کے پیش نظر ’ترقی یافتہ ہندوستان‘ کے ہدف کو حاصل کرنے کے مسائل کو مکمل طور پر حل کرنے کے لیے یہ کمیٹی وسیع پیمانے پر غور و فکر کرتے ہوئے حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرے گی۔
ایودھیا میں رام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ کے بعد بی جے پی نے ہندوتواور قوم پرستی سے متعلق اپنے ایک اور بنیادی ایشو کو اپنے ایکشن پلان میں شامل کیا ہے۔ ملک میں عام انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر آبادی کا عدم توازن برسوں سے بی جے پی کے لیے ایک بڑا انتخابی ایشو رہا ہے۔ اکثریت کی آبادی کے مقابلہ اقلیتوں کی آبادی میں تیزی سے ہوئے اضافے پر اسے ہمیشہ اعتراض رہا ہے۔ ایسے میں یہ ایشو ایک بڑا سیاسی ایشو ضرور لگتا ہے اور حکومت کے ناقدین اسے ہندوستانی معاشرے میں تنازع بڑھانے والا بھی قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن عام آدمی کو دستیاب سہولیات، خدمات اور معیشت کے نقطہ نظر سے غور کرنے پر شاید ہی کوئی اس مسئلے کی سنگینی کو کم کرکے دیکھے۔ آبادی کے معاملہ میں آج جب ہندوستان چین کے تقریباً برابر پہنچ چکا ہے تو توقع کی جاتی ہے کہ حکومت کا یہ ٹھوس اقدام آبادی پر کنٹرول کے معاملے پر ایک نئی اور سنجیدہ بحث کا آغاز کرے گا۔
دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلہ ہندوستان میں آبادی میں اضافہ کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ موجودہ ہندوستان میں آبادی میں اضافے کی رفتار کو کنٹرول کرنا ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی نہ صرف صحت اور تعلیم سے متعلق خدمات کے اسموتھ آپریشن میں رخنہ پیدا کرتی ہے بلکہ دیگر تقریباً تمام ضروری عوامی خدمات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے حکومت کا یہ فیصلہ اہم اور خوش آئند ہے۔ حالانکہ حکومت ہند آبادی پر کنٹرول کو قومی سطح پر پہلے ہی ایک اہم ایشو اعلان کرچکی ہے۔ لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم بھی آبادی میں اضافہ کو آنے والی نسلوں کے لیے چیلنج قرار دے چکے ہیں۔ ایسے میں کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرکے اس کی مد میں کچھ رقم مختص کرنا ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کو دوہرانے کے مترادف ہے۔ آبادی پر قابو پانے پر توجہ دینے سے نہ صرف آبادی میں اضافے کی رفتار سست ہوگی بلکہ اسی تناسب سے ترقی کی رفتار بھی تیز ہوگی۔ آبادی پر قابو پانے کے لیے تعلیم کے فروغ اور بیداری کے لیے بجٹ میں تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔ تعلیم کے ذریعے عوام خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت کو سمجھیں گے اور بالآخر آبادی کی صورتحال کے تئیں ان کی بیداری میں اضافہ ہوگا۔ بجٹ میں صحت کی خدمات کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ سے سماجی منصوبوں میں آبادی پر قابو پانے کو شامل کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ملک کو آبادی کے مسئلہ سے نمٹنے میں مدد ملے گی اور ترقی کی راہ میں آبادی مسئلہ نہیں بلکہ طاقت بن کر ابھرے گی۔
آبادی میں کنٹرول کے چیلنجوں کا سامنا کرنے میں یہ کمیٹی نئی رہنمائی کرے گی۔ اس کا بنیادی مقصد مختلف علاقوں میں آبادی پر قابو پانے کے لیے پالیسیوں اور منصوبہ بندی کرنا ہو گا۔ سروے اور مطالعات کے ذریعے یہ کمیٹی اپنی افادیت میں اضافہ کرسکتی ہے۔ اس کے لیے اسے مختلف شعبوں کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ بیداری میں اضافہ والے سماجی پروگراموں اور صحت کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانے سے متعلق پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ آبادی پر قابو پانے کے تکنیکی اور اخلاقی امورپر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کسی بھی قوم اور معاشرے میں آبادی پر قابو پانے کے پروگرام نافذ کرنے سے سماجی عدم مساوات کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ ذات پر مبنی یا معاشی بنیاد پر کنٹرول کے کم و بیش موثرہونے سے ایک قسم کا عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے۔ آبادی پر قابو پانے کے پروگراموں کو نافذ کرنے میں ضروری وسائل میں کمی بھی پالیسیوں کے مؤثر عمل درآمد میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ان اہم نکات پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے آبادی پر کنٹرول کے شعبے میں جامع اور قبول شدہ پالیسیاں بنانے، آبادی پر قابو پانے کے اہم چیلنجوں کا حل تلاش کرنے اور متعلقہ پالیسیوں اور منصوبوں کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے پلیٹ فارم کے طور پر کام کرنے میں ہی کمیٹی کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے لوگوں کے درمیان اگر رابطہ مضبوط ہوگا تو بیداری میں اضافہ ہوگا۔ حکومت بھی مسائل کو گہرائی سے سمجھے گی اورفعال پالیسیاں ڈیولپ کرنے میں کامیاب ہوگی۔ مختلف شعبوں کے ماہرین تازہ ترین اعداد و شمار، مطالعات اور تحقیق کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
بے قابو بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اگرچہ حکومت ہند نے وقتاً فوقتاً کئی پالیسیاں اور اسکیمیں بنائی ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی نے ہندوستان کے سامنے سماجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر بہت سے نئے چیلنجز بھی پیدا کیے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی معیشت پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتی ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے روزگار اور معاشی ترقی میں شدید بحران نظر آتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی صحت کی خدمات کو بھی ناکافی بنا دیتی ہے۔ ضروری صحت خدمات اور سہولیات کے لیے بھی لوگوں کو ضروری وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی ماحولیاتی وسائل پر بھی بہت زیادہ دباؤ ڈالتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پانی، جنگلی حیات اور آب و ہوا میں تبدیلی کے بھی مضر اثرات نظر آنے لگتے ہیں۔
آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کا حکومت کی اہم تشویشات میں شمار ہونا ناگزیر ہے۔ مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا موجودہ وقت کی ضرورت ہے۔ آبادی میں اضافے کی وجہ سے معاشرہ پہلے سے ہی متعدد معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ صحت کی خدمات اور ضروری وسائل کی کمی کے مسئلہ سے نبردآزما ہے۔ آبادی پر کنٹرول ان مسائل اور چیلنجوں سے دور لے جاتے ہوئے لامحدود امکانات کے دروازے کھول سکتا ہے۔ متعلقہ پالیسیاں اور پروگرام ہندوستان کو خوشحالی اور مساوات کی سمت میں آگے بڑھنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ آبادی پر قابو پانے کے پروگرام لوگوں کی تعلیم، صحت اور دیگر خدمات تک رسائی کو بہتر بنا سکتے ہیں، جس سے ان کی سماجی اور اقتصادی ترقی ممکن ہو۔ اس لیے آبادی پر کنٹرول اور ڈیموگرافی کے ایشوز جدید ہندوستان کے لیے اہم ہیں۔ متعلقہ پالیسیاں بنا کر آبادی کے دھماکے سے متعلق چیلنجوں کا حل فراہم کرنا ترقی یافتہ ہندوستان کی سمت میں ایک بامعنی شروعات ہوگی۔rvr