عبدالماجد نظامی
حال حال ہی میں ہندوستان کی دو معروف شخصیتوں کو بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ان میں سے ایک کرپوری ٹھاکر جی ہیں جو بہار کے سابق وزیراعلیٰ ہیں اور جن کا شاندار کردار اس ملک کو بہتر بنانے میں رہا ہے۔ کرپوری ٹھاکر جی ہمیشہ اس بات کے لیے یاد کیے جائیں گے کہ انہوں نے سماجی عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی اور بہار کے اندر سماجی نابرابری کو ختم کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وشوناتھ پرتاپ سنگھ سے بھی قبل اگر کسی نے او بی سی اور دیگر پسماندہ طبقات کو عزت کی زندگی عطا کرنے میں سنجیدہ کوشش کی ہے تو اس میں کرپوری ٹھاکر جی کا نام سر فہرست لیا جانا چاہیے۔ ہندوستانی سیاست میں مثبت پالیسیوں اور گہرے بدلاؤ کا پیش خیمہ بننے والے اصولوں کی بنیاد رکھنے والے مضبوط ستون کے طور پر ان کو ہمیشہ یاد رکھا جانا چاہیے اور آج کی تقسیم و نفرت کی پالیسیوں کے عہد میں اس بات کی ضرورت ہے کہ کرپوری ٹھاکر جی کی زندگی کے تمام اوراق کو از سر نو کھولا جائے اور نئی نسل کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ ان کی زندگی کا مطالعہ کرے اور ان سے روشنی پاکر ہم آہنگی اور نفرت سے عاری سیاست و ترقی کے اسباق کو اپنی زندگی میں بھی نافذ کرے اور اپنے سماج کو بھی ایسے مستقبل کی طرف لے جائے جس میں اس بات کو یقینی بنانا ممکن ہوپائے کہ سماج کا کوئی بھی طبقہ خود کو الگ الگ اور اصل دھارا سے جدا محسوس نہ کرے یا اس کے دل و دماغ پر خوف و مایوسی کا سایہ نہ پڑے۔ کم سے کم کرپوری ٹھاکر جی کی زندگی اور سیاست سے تو یہی سبق ملتا ہے کہ ایک بلند فکر قائد کیسا ہونا چاہیے۔ وہ اپنے عہد سے بہت آگے کی سوچ رکھتے تھے اور صرف اپنے دوست ہی نہیں بلکہ حریفوں اور رقیبوں کے ساتھ بھی نباہ کرکے عوامی بھلائی کی پالیسیوں کو نافذ کرنے میں ادنیٰ درجہ کی کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ یہ ان کی ہی دوررسی تھی کہ انہوں نے جہاں ایک طرف بہار کے دیگر پسماندہ طبقات کو ترقی دے کر انہیں سماجی برابری کے مواقع فراہم کیے، وہیں انہوں نے ریاست کی مسلم اقلیت اور ان کی زبان و تہذیب کا بھی پورا خیال رکھا۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر انہوں نے بڑا کام یہ کیا کہ اردو کو ریاستِ بہار کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ عطا کیا اور اس کی خاطر اپنے سیاسی حلیف جن سنگھ کی گالیاں سنیں اور ان کے تازیانے سہے۔ جن سنگھ نے آخرکار اسی مسئلہ پر کرپوری ٹھاکر جی سے اپنی حمایت بھی واپس لے لی تھی، لیکن اس مردآہن نے کبھی ہار نہیں مانی اور جس نیک مقصد کے لیے قدم اٹھایا تھا، اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اس پالیسی کا اچھا اثر بہار کی مسلم اقلیت پر یہ پڑا کہ وہ اسکولوں میں ٹیچر بن سکی اور دیگر سرکاری شعبوں کو اپنی صلاحیتوں سے مالا مال کیا اور کرپوری ٹھاکر جی کی پالیسی کی بدولت آج تک بہار فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی یگانگت کی شاندار مثال بنا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بالکل موزوں ہے کہ ان کو ’’بھارت رتن‘‘ جیسے امتیازی انعام سے نوازا جائے اور ان کی خدمات سے آج کی اور آئندہ نسلوں کو بھی روشناس کرانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ حالانکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ آج کی بھارتیہ جنتا پارٹی گزشتہ کل کے جن سنگھ کی وراثت کی امین ہے۔ اس لیے یہ بات تھوڑی عجیب تو لگی کہ جس جن سنگھ نے کرپوری ٹھاکر کو سنگ و دشنام سے نوازا تھا، اس نے آخر انہیں ’’بھارت رتن‘‘ عطا کرنے کا فیصلہ کیسے کر لیا؟ لیکن بہار کی سیاست میں بی جے پی کی اب تک کی ناکامی یہ بتاتی ہے کہ اس انعام کا اصل مقصد کرپوری ٹھاکر جی کو نوازنا نہیں ہے بلکہ او بی سی کو رجھانا پیش نظر ہے۔ اس کے باوجود بہار کے لوگ اس عمل کو تو مثبت طور پر ہی دیکھیں گے کہ کم از کم تاخیر سے سہی لیکن کرپوری جی کو وہ حق تو ملا جس کے وہ ہمیشہ سے حق دار تھے۔
لیکن کیا یہی بات اس دوسری شخصیت کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جن کو ’’بھارت رتن‘‘سے نوازا گیا ہے اور جنہوں نے اس ملک کی سیاست میں نفرت و تقسیم اور فرقہ وارانہ فسادات کی تخم ریزی کی تھی اور اس کو اس حد تک پروان چڑھایا تھا کہ جس طرف سے بھی ان کا رتھ گزرا اپنے پیچھے نفرت اور قتل و خون کا سیاہ دھواں چھوڑتا چلا گیا اور جس کی گھٹن آج بھی ہر گھر اور ہر گلی میں محسوس کی جا رہی ہے۔ یہ شخصیت لال کرشن اڈوانی کی ہے۔ ان کو ملک کی سیاست میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے گاندھی کی سدبھاؤنا اور بقائے باہم کی پالیسی کی جگہ بھائی بھائی کے درمیان نفرت و عداوت کی موٹی اور ناقابل شکست دیوار اٹھانے اور ہر گلی محلہ کو میدان جنگ میں تبدیل کرنے کا نسخہ عنایت کیا۔ جب وہ اپنی سیاست کی بلندی پر تھے تو ان کی زبان سے محبت و بھائی چارہ کی کوئی آواز تک نہیں نکلتی تھی۔ کیا وہ اس حقیقت سے اپنا دامن بچا پائیں گے کہ انہوں نے تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے لیے ایک جنونی بھیڑ کی قیادت کی تھی جس نے اس ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ہمیشہ کے لیے داغ دار کر دیا تھا؟ کیا وہ اس تاریخ کو بدل پائیں گے کہ ان کی رتھ یاترا کی وجہ سے ایک ہندوستانی دوسرے ہندوستانی کا دشمن بنا اور ان کے ساتھ قتل و خون کی ہولی کھیلنے سے بھی باز نہ رہا؟ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی سیاست اس وقت ایسے موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں معقول اور حقیقت پر مبنی واقعات پر گفتگو کرنا آسان نہیں ہے اور ایک خاص قسم کا طوفان اٹھ گیا ہے جس میں عدل و انصاف کی بات کرنے والے بڑے بڑے مہارتھی بھی یا تو خاموش ہوگئے ہیں یا پھر اسی طوفان کی دوش پر اڑنا پسند کر لیا ہے لیکن مستقبل کا مورخ جب ’’بھارت رتن‘‘کی تاریخ لکھے گا تو وہ اس پہلو پر کس طرح روشنی ڈالے گا کہ ایک ہی ایوارڈ ایک طرف کرپوری ٹھاکر جی کو دیا جا رہا تھا اور دوسری طرف لال کرشن اڈوانی کو تو آخر اس کا کیا مطلب نکالا جائے گا؟ تاریخ ہمیشہ بے رحم ہوتی ہے۔ وہ بس اسی شئے کو محفوظ رکھتی ہے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جس کے دامن میں سچائی کے موتی ہوتے ہیں۔ یہ بھی قدرت کا ہی انصاف ہے کہ کرپوری ٹھاکر جی جیسے انسانیت نواز اور انصاف پسند کو ’’بھارت رتن‘‘ اسی دور میں دیا گیا جس دور میں لال کرشن اڈوانی کو دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں ان دونوں شخصیتوں کا موازنہ جب بھی کیا جائے گا یہ بات ضرور سامنے آئے گی کہ ایک شخصیت نے اپنے اثر و نفوذ کا استعمال ملک اور عوام کو جوڑنے کے لیے کیا تھا جب کہ دوسرے نے اس ملک میں نفرت و تقسیم کی آبیاری کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا تھا۔ کرپوری ٹھاکر کے نام سے جہاں ’’بھارت رتن‘‘کے تمغہ کو وقار عطا ہوگا، وہیں اڈوانی کے نام پر یہ کہنا بڑا مشکل ہوگا کیونکہ ان کا نام فسادی ملزمین کی فہرست میں شامل رہا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]