پنکج چترویدی
52سال قبل18مارچ سے 4اپریل 1972تک نئی دہلی کے ونڈسر پیلیس کے میدان میں تقریباً200شرکاء کے ساتھ شروع ہوا نئی دہلی عالمی کتاب میلہ، اب دنیا کے سب سے بڑے کتاب میلوں میں شامل ہے۔2013تک یہ ہر دو سال میں لگتا تھا، پھر یہ سالانہ جلسہ ہوگیا۔ مصنّفین، پبلشرز اور قارئین کو نئی دہلی کے عالمی کتاب میلے کا بڑی بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔ اس بار یہ 10 سے 18فروری 2024تک ہے۔ حالاں کہ فیڈریشن آف انڈین پبلشرز(ایف آئی پی) بھی ہر سال اگست میں دہلی کے پرگتی میدان میں ہی کتاب میلہ منعقد کررہی ہے اور اس میں تقریباً تمام نامور پبلشرز آتے ہیں، اس کے باوجود نیشنل بک ٹرسٹ کے کتاب میلے کو زیادہ پہچان حاصل ہے۔ عالمگیریت کے دور میں ہر چیز بازار بن گئی ہے، لیکن کتابیں، خاص طور پر ہندی کی، ابھی اس فہرست سے دور ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے نئی دہلی کے کتاب میلہ پر مارکیٹ کا اثر نظر آرہا ہے۔ کتابوں کے حقوق کے تبادلے کے لیے دو دن ’’رائٹس ٹیبل‘‘کا خصوصی انعقاد ہوتا ہے۔یہ بڑی بات ہے کہ صرف کتابیں خریدنے کے لیے درجنوں ویب سائٹس دستیاب ہیں جن پر گھر بیٹھے آرڈر دو اور گھر بیٹھے ڈلیوری لو، اس کے باوجود یہاں 1200 سے 1400شرکا ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ چاہنے کے باوجود بھی شرکت نہیں کر پاتے کیونکہ جگہ نہیں ہوتی۔
درحقیقت کتاب بھی انسانی محبت کی طرح ہوتی ہے جس سے جب تک بات نہ کرو، روبرو نہ ہو، ہاتھ سے محسوس نہ کرو، اس وقت تک وابستگی کا احساس نہیں دیتی۔ پھر موازنہ کے لیے ایک ہی جگہ پر ایک ساتھ اتنے لیونگ پروڈکٹس ملنا ایک بہتر مارکیٹنگ آپشن اور اپروچ بھی ہے۔ تاہم، یہ کتاب میلہ ایک تہوار کی طرح ہوتا ہے، جہاں کتابوں کی محض تجارت ہی نہیں بلکہ کئی طرح کے اجتماعات ہوتے ہیں۔ لیکن یہ نئی دہلی کتاب میلے کا31 واں انعقاد ہے اور اسے اب بدلنا ہوگا۔ گزشتہ سال سے یہ میلہ پرگتی میدان کے نئے تعمیر شدہ ہال میں منعقد کیا جا رہا ہے اور اتنے بڑے کیمپس میں کوئی اسٹال تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ بیجنگ کتاب میلہ میں بڑے بڑے ہالس کو چوراہوں کی طرح تقسیم کیا جاتا ہے اور درمیانی راستے پر بڑی بڑی پلیٹیں لٹکی ہوتی ہیں جو قطار اور کالم میں شامل دکانداروں کے نمبر واضح طور پر دکھاتی ہیں۔ دراصل زیادہ لوگوں کی تعداد بڑھانے کے لیے نئی دہلی کے کتاب میلہ میں قطاریں ٹھیک سے نہیں بن پاتی ہیں۔ ایک اور بات، یہاں دریا گنج کے زیادہ تر ڈسٹری بیوٹرز اور سیلر اسٹال لگاتے ہیں، نتیجتاً کئی کئی اسٹالوں پر ایک ہی طرح کی کتابیں نظر آتی ہیں۔ انگریزی کے حصے میں لوگ بیرون ملک سے آئی ردّی میں سے کتابوں کو بہت کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں، ان کے یہاں ہجوم بھی ہوتا ہے لیکن ایسے مناظر کسی میلے کی ’’دنیا‘‘ ہونے کی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
یہ بات بھی کافی موضوع بحث ہے کہ اس کتاب میلہ میں غیر ملکیوں کی شرکت تقریباً نہ کے برابر ہوتی جا رہی ہے۔ اگر سری لنکا اور نیپال کو چھوڑ دیں تو ورلڈ بینک، اقوام متحدہ کی لیبر آرگنائزیشن، ہیلتھ، یونیسیف وغیرہ کے اسٹالز غیر ملکی پویلین میں اپنے تشہیری مواد کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں۔ فرینکفرٹ اور ابوظہبی کتاب میلہ کے اسٹالز کا مقصد شرکاء کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ چند اسٹالز پر غیر ملکی کتابوں کے نام پر صرف ’ریمینڈرس‘ یعنی دوسرے ممالک کی فالتو یا پرانی کتابیں ہوتی ہیں۔ ایسی کتابوں کو ہر اتوار کو دریا گنج میں لگنے والے پٹری بازار سے آسانی سے خریدا جاسکتا ہے۔ پہلے پاکستان سے دس پبلشرز آتے تھے لیکن گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کے ساتھ باقی ماندہ تجارت تو جاری ہے لیکن ایک دوسرے کے کتاب میلوں میں شرکت بند ہوگئی۔ہر بار کسی ملک کو ’’مہمان خصوصی ملک‘‘کا درجہ دیا جاتا ہے، وہاں سے ادیب اور فنکار بھی آتے ہیں لیکن ان کے انعقاد میں بیس لوگ بھی نہیں ہوتے۔ اول تو ان کی پبلسٹی کم ہوتی ہے، پھر پرگتی میدان میں گھومنا اور کسی سمینار میں بھی بیٹھنا کسی کے لیے شاید ہی ممکن ہو۔حالاں کہ غیر ملکی تو دور کی بات، ہمارے میلے میں آئین میں مطلع تمام22ہندوستانی زبانوں کے اسٹالز بھی نہیں ہوتے۔ اس سے پہلے ریاستوں کی پبلشرز ایسوسی ایشنز کو مفت اسٹال اور رہائش فراہم کی جاتی تھی تو کئی لسانی پبلشرز یہاں آتے تھے۔
نئی دہلی کے کتاب میلہ کی شبیہ پر ایک داغ وہاں ہرحال میں بجنے والے پروچن اور شور ہے۔ بابا-بیراگیوں اور مختلف مذہبی اداروں کے اسٹالز میں ہورہا غیرمتوقع اضافہ بھی سنجیدہ کتاب شائقین کے لیے لمحہ فکریہ کاموضوع ہے۔ ان اسٹالز پر نام نہاد سنتوں کے پروچنوں کی کتابیں، آڈیو کیسٹس اور سی ڈیز فروخت ہوتی ہیں۔ قرآن شریف اور بائبل سے متعلق ادارے بھی اپنی تشہیر کے لیے عالمی کتاب میلہ کا سہارا لینے لگے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں سے ہر بار وہاںکچھ تنظیمیں ہنگامہ برپا کرتی ہیں اور پوری ادبی دنیا فرقہ وارانہ تنازع میں خاک زدہ ہوجاتی ہے۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ کتابیں جمہوریت کی طرح ہیں- آپ کو اپنی پسند کا موضوع، مصنف، زبان کا انتخاب کرنے کا حق دیتی ہیں۔ یہ امتزاج ہی تو ہے جہاں گاندھی اور ساورکر، چے-گوویرا اور بھگوت گیتا ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور پڑھنے والا فیصلہ لیتا ہے کہ وہ کس کو پسند کرے۔ یا تو اس طرح کے مذہبی اسٹالز کو لگانے ہی نہیں دینا چاہیے یا پھر انہیں کسی ایک جگہ پر اکٹھا کردینا چاہیے۔
کتاب میلہ کے دوران بغیر کسی سنجیدہ منصوبہ بندی کے سمیناروں، کتاب کی رونمائی کی تقریبات کا بھی انبار ہوتا ہے۔ کئی بار تو ایسے پروگراموں میں مقرر کم اور سامعین زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اب ایک ہی طرح کے نظریات کے لوگوں کو آرگنائزر کی جانب سے ترتیب دیے گئے ’’رائٹرز فورم‘‘ میں وقت دیا جاتا ہے۔ دراصل یہ جگہ شرکت کرنے والے پبلشرز کے لیے بنائی گئی تھی تاکہ وہ اپنے اسٹالز پر رونمائی وغیرہ نہ کریں اور اس سے وہاں بھیڑ جمع نہ ہو۔ لیکن رائٹرز کا فورم سیاسی منچ بن گیا اور پبلشرز اپنے اسٹالز پر تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ بالامنڈپ میں بھی بچے اسکولوں سے بلائے جاتے ہیں، جب کہ یہ جگہ ایسی منطقی ہونی چاہیے کہ میلے میں آنے والے بچے خود بخود یہاں کی سرگرمیوں میں شامل ہوں۔
کتاب میلے کے دوران پبلشرز، دھارمک سنتوں اور مختلف ایجنسیوں کی طرف سے مفت تقسیم کیا جانے والا مواد بھی ایک آفت ہے۔ پورا پرگتی میدان ردّی سے بھرا نظر آتا ہے۔ تقریباً سو لوگ تو روزانہ ایسا ’’کچرا‘‘ اکٹھا کرکے بیچنے کے لیے ہی کتاب میلہ کو یاد کرتے ہیں۔ تعطیل کے دن متوسط طبقے کے خاندانوں کے لیے وقت گزارنے کا مقام، محلے و معاشرے میں اپنی ذہانت ثابت کرنے کا موقع اور بچوں کے لیے چھٹی گزارنے کا ایک نیا ڈیسٹینیشن بھی ہوتا ہے،کتاب میلہ۔ یہ بات دیگر ہے کہ اس دوران پرگتی میدان کے کھانے پینے کے اسٹالز پر کتابوں کی دکانوں سے زیادہ فروخت ہوتی ہے۔
پارکنگ، گراؤنڈ کے اندر اشیائے خوردونوش کی بے تحاشا قیمتیں، ہال کے اندر کمزور موبائل نیٹ ورک، ہجوم کے آنے جانے کے راستے ایک ہی ہونے جیسی کئی پریشانیاں ہیں، جن سے اگر نجات مل جائے تو صحیح معنوں میں نئی دہلی کتاب میلہ ’’عالمی‘‘ سطح کا ہوگا۔
[email protected]