غزہ پر اسرائیلی جارحیت اس دور کا عظیم ترین سانحہ ہے، اس سانحہ کی شدت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ پورا عالمی نظام جارحیت کو روکنے ٹوکنے میں ناکام ہے اورنہ صرف ناکام ہے بلکہ جس طرح کچھ ممالک ارباب اقتدار اس کو حمایت دے رہے وہ اس قتل عام میں ملوث ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔ مگرکچھ ایسے ممالک جواسرائیل کے اس جرم میں شریک نظرآتے ہیں ان کے عوام اپنے ارباب اقتدار کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔ امریکہ میں اسرائیل کی بربریت پر شدیدناراضگی ہے۔ اس کا احساس یہاں کی سیاسی پارٹیوں کوہونے لگا ہے بطور خاص امریکہ کی حکمراں جماعت کو شدت کے ساتھ محسوس ہونے لگاہے کہ امریکی عوام میں صہیونیوں کی اندھی حمایت ان کے لیے مشکلات کا سبب بنی جارہی ہے۔
دونوں ممالک میںرشتے کافی مضبوط ہیں اور اگر ہم یہ کہیںکہ یہ دونوں ایک جان دوقالب ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ امریکہ اسرائیل پر گہرے اثرات رکھتا ہے مگر حالیہ واقعات اورسیاسی صورت حال سے اندازہ ہوا ہے کہ امریکہ اسرائیل پر اثرات نہیں ہورہاہے بلکہ اسرائیل امریکہ کی پالیسی اور رویہ کو متاثر کررہاہے۔ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ یعنی وزیرخارجہ نے اس بحران کی ابتدا میں جو بیان دیاتھا، اس سے یہ تاثرملا کہ وہ امریکہ کے وزیرخارجہ نہ ہوکر اسرائیل کے وزیرخارجہ یاپالیسی سازہوں۔
امریکی صدکانتن یاہو کی پیٹھ تھپتھپانا اور اب تک اسرائیل کی فوج اور ارباب اقتدار کی مذمت کے لیے ایک لفظ تک برآمد نہیں ہوا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکہ میں اس بات پر مسابقت چل رہی ہے کہ کون اسرائیل کا بڑاحامی ہے اور نہ صرف سیاست داں، ممبران کانگریس اسرائیل کو حمایت دیتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم جوبائیڈن کے رویہ کودیکھ چکے ہیں اور اس سے قبل ڈونالڈٹرمپ کو بھی دیکھا ہے جنھوںنے اپنے جارحانہ ہنگامہ خیز دور اقتدار میں فلسطینی کاز کو وہ نقصان پہنچایا جو گزشتہ تقریباًآٹھ دہائیوں میں کوئی نہیں پہنچاسکا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے یروشلم کواسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرلیا۔ خیال رہے کہ تمام بین الاقوامی ادارے، ایجنسیاں صرف اور صرف تل ابیب کو ہی اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرتے ہیں اور یروشلم کو بین الاقوامی سطح پر ایک غیرجانبدار شہر قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی نظام سیاست میں یروشلم کو تمام مذاہب کے مقدس مقامات کا شہر قرار دیاجاتا ہے۔ ڈونالڈٹرمپ کا یروشلم سے متعلق فیصلہ تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھا اور خود امریکہ کی پالیسی کے خلاف تھا مگر اس کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرکے نمک کا حق ادا کردیا۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگرامریکہ کے موجودہ صدر کے خلاف رائے دہندگان ووٹ دے کر ان کو ہرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہوں گے اور اگر وہ الیکشن جیت جاتے ہیں تواس وقت کے حالات توموجودہ حالات سے زیادہ سنگین اور پرپیچ ہوں گے۔ڈونالڈ ٹرمپ کی مقبولیت امریکہ کے سفیدفارم عوام کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا اثرورسوخ سرمایہ داروں اور عیسائیوں میں ابھی بھی کافی برقرار ہے۔ علاوہ ازیں امریکی صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی کے لیے ایک اور لیڈر نیکی ہیلی زور بھررہی ہیں۔ نکی ہیلی کے گزشتہ اسرائیل کی اندھی حمایت کے بیانات، ڈونالڈٹرمپ اورجوبائیڈن سے زیادہ سخت ہیں۔ تقریباً یہی صورت حال برطانیہ میں بھی ہے، وزیراعظم رشی سونک سے زیادہ سخت بیانات حزب اختلاف لیبرپارٹی کے لیڈر کیراسٹیمر(Keir Stammer)کے ہیں۔ جبکہ لیبرپارٹی کے ایک اور لیڈر جرمی کوربین(Jermy Corbyn)کاشمار برطانیہ کے ان لیڈروں میں ہوتاہے جو کہ اسرائیل کے سخت مخالف ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ کا پورا نظام سیاست پنجہ یہود میں اس طرح جکڑاہوا ہے کہ اس سے نجات ممکن نہیں۔ برطانیہ میں گزشتہ پانچ سال میں کتنے وزرائے اعظم بدلے گئے ہیں، ان کا یادرکھنا مشکل ہے۔ 2016کے بعد سے اب تک پانچ وزرائے اعظم اقتدار کے گلیاروں میں آتے اورجاتے رہے ہیں۔ 2016میں ڈیوڈ کیمرون اس کے 2016سے 2019تک کے درمیان ٹریسامئے 2019سے 2022تک بورس جانسن پھر 2022سے لزٹرس اور اب 2023میں ہی رشی سونک وزیراعظم ہیں۔ لزٹرس کا یہودیوں کے ایک اجتماع میں اشتعال انگیز بیان بڑا سرخیون میں آیاتھا جس میں وہ اسرائیل کی راجدھانی یروشلم کو قرار دینے کے لیے قسمیں اوروعدے کرتی دیکھی جاسکتی ہیں۔
مبصرین کی رائے ہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈٹرمپ اگرایک مرتبہ اور صدر چن لیے جاتے ہیں تو وہ مغربی کنارے کو مکمل طورپراسرائیل کی مملکت کے حصے کے طور پر تسلیم کرلیں گے۔ خیال رہے کہ یروشلم مغربی کنارے کا خطہ ہے اور اوسلومعاہدے کے تحت مغربی کنارے مستقبل کی فلسطین ریاست کا ایک اہم حصہ ہے۔اب بھی وہاں فلسطینی اتھارٹی کاہیڈکوارٹر ہے اور مغربی کنارے میں جو یہودی بستیاں اسرائیل بنارہاہے وہ بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ جوبائیڈن اوران کی پارٹی یروشلم کواسرائیل کی راجدھانی تسلیم نہیں کرتے ہیں اس کے باوجود یروشلم میں امریکی سفارت خانہ قائم ہوچکا ہے اور امریکی افسران یروشلم کے سفارت خانے سے ہی کام کرتے ہیں۔ مغربی کنارے پر اسرائیل جو بھی استبدادی کارروائیاں کررہاہے، موجودہ امریکی انتظامیہ ان کی مذمت کرتا۔ اقوام متحدہ کی طرح مغربی کنارے کی مختلف علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کوغیرقانونی قرار دیاجاتا ہے اور امریکہ مغربی کنارے میں یہودی نوآبادکاروں کی فلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں پر سخت تادیبی اور قانونی کارروائی کررہا ہے اوران یہودیوں کی کارروائیوں کو نسل پرستی قرار دیتا ہے۔n
مغربی ممالک : ظالم کے ساتھ شراکت داری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS