طاقت ہمیشہ سے ہی سیاست کا اہم ہتھیار رہی ہے۔یہ ہتھیار جس کے پاس ہوتا ہے، وہ تمام مخالفین کو اپنے سامنے سرنگوں دیکھنا چاہتا ہے۔ آج مرکز کی مودی حکومت کے پاس بے پناہ طاقت ہے۔ اس طاقت کا استعمال ملک کی تعمیر کی بجائے مخالفین کو دیوار سے لگانے اور انہیں اپنے سامنے جھکانے کیلئے ہورہاہے۔ ایک طرف وزیراعظم پارلیمنٹ کے سامنے اپنے مخالفین کو خوداحتسابی کا درس دیتے ہوئے ہنگامہ و احتجاج سے توبہ کی تلقین کرتے ہیں تو دوسری جانب اسی طاقت کا ظالمانہ استعمال کرتے ہوئے آئینی عہدہ پر بیٹھے ہوئے ایک منتخب حکومت کے وزیراعلیٰ کو گرفتار کرلیاجاتا ہے۔تازہ گرفتاری ہیمنت سورین کی ہوئی ہے جن کے خلاف مبینہ زمین گھوٹالہ کے الزام میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ تفتیش کررہاہے۔
طاقت کا یہ کھیل ہر چند کہ نیانہیںہے لیکن اس کھیل میں اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی کو وہ کامیابی نہیں ملی جس کی اسے امید تھی۔نہ تو بی جے پی اپنی حکومت بناپائی اور نہ اپنے کسی باج گزار کوجھارکھنڈ کا اقتدار دلانے میں کامیاب ہوپائی۔ہیمنت سورین نے اپنے والد سے ملی سیاسی فراست کا برمحل استعمال کیا اورواقعات کے تیز رفتار سیاسی موڑ میں اپنی گرفتاری کو یقینی سمجھتے ہوئے جھارکھنڈ کے گورنر سی پی رادھا کرشنن کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا تھا اور حکمراں جھارکھنڈ مکتی مورچہ قانون ساز پارٹی نے متفقہ طور پر چمپئی سورین کو اپنا لیڈر منتخب کرلیاتھا۔
ہیمنت سورین کی گرفتاری کو اسی نقطہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے جس کے تحت دہلی حکومت کے تین سینئر وزرا اور رکن پارلیمنٹ کو مہینوں سے جیل میں رکھا گیا ہے اوردہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے سر پر بھی گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ چھتیس گڑھ کے سابق وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل سمیت ملک کے کئی اپوزیشن لیڈران ای ڈی کی رڈار پر ہیں۔بی جے پی حکومت جس طرح سے ملک میں اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کے خلاف اپنی تحقیقاتی ایجنسیوں ای ڈی، انکم ٹیکس اور سی بی آئی کے ذریعہ اندھا دھند چھاپے مار رہی ہے اور انہیں جیل میں ڈال رہی ہے، وہ جمہوریت کیلئے سنگین خطرے کی علامت ہے۔ بی جے پی ان ایجنسیوں کا استعمال مخالف حکومتوں کو گرانے کیلئے کرتی ہے۔
ہیمنت سورین کی گرفتاری کا اصل مقصد وہاں کی حکومت کو گرانا تھا۔ جے ایم ایم کے پاس تقریباً 47 ایم ایل اے ہیں اور بی جے پی کے پاس تقریباً 33 ایم ایل اے ہیں۔ بی جے پی حکمراں پارٹی کے ارکان کو بے دخل کرکے وہاں حکومت بنانے کا ارادہ رکھتی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح چند دنوں پہلے بہار میں ہواتھا۔ جہاںجنتا دل یونائیٹڈ کے سپریمو اور وزیراعلیٰ نتیش کمار نے راشٹریہ جنتا دل سے الگ ہو کر 6 گھنٹے کے اندر این ڈی اے کے ساتھ نئی حکومت بنائی تھی۔ جھارکھنڈ میں بھی حالات ایسے تھے کہ چمپئی سورین نے اپنے ساتھ کھڑے تمام 47 ارکان اسمبلی کی فہرست گورنر کو سونپ دی تھی، اس کے باوجود گورنر نے سست روی کا مظاہرہ کیااور انہیں فی الفور حکومت سازی کیلئے مدعو نہیں کیا گیا۔ ہیمنت سورین کی گرفتاری اور راج بھون کی سست روی کی وجہ سے بدنام زمانہ آپریشن لوٹس کی کامیابی قریب آگئی تھی، لیکن جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے لیڈروںنے ساری کوششیں ناکام بنادیں۔ کافی تنازع کے بعد گورنر نے جمعرات کی رات جے ایم ایم کے نائب صدر چمپئی سورین کو نامزد وزیراعلیٰ مقرر کیا اور انہیں حلف اٹھانے کی دعوت دی او راکثریت ثابت کرنے کیلئے انہیں 10 دنوں کی مہلت دی ہے۔
جھارکھنڈ معدنی وسائل سے مالا مال ایسی ریاست ہے جس پر مرکزی حکومت کے پروردہ تاجروں کی نظر ٹکی ہوئی ہے۔بی جے پی کے حمایت یافتہ تاجروں کیلئے یہاں کام کرنا مشکل ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہیمنت سورین بی جے پی کی آنکھوں میں کانٹا ہیں کیونکہ وہ ریاست کے قبائلیوں، دلتوں، پسماندہ طبقات، استحصال زدہ، محروموں وغیرہ کے مفادات سے کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ چونکہ ہیمنت سورین کا تعلق بھی قبائلی برادری سے ہے، اس لیے وہ اور ان کی پارٹی قبائلی برادریوں کے مفادات کی خاطر جنگلات کی بے رحمانہ کٹائی اور معدنیات کے اندھا دھند استحصال کے خلاف ڈٹی رہی۔اب نئے وزیراعلیٰ چمپئی سورین نے بھی اسی عزم کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہیمنت سورین کے کاموں کو ہی آگے بڑھائیں گے۔ان حالات میں بی جے پی کو جھارکھنڈ میں چمپئی سورین کی بھی حکومت قبول نہیں ہوگی، اس لیے یہ خدشہ باقی رہتا ہے کہ کہیں کسی دوسرے چورراستے سے آپریشن لوٹس کی کامیابی کی راہ ہموار نہ کی جارہی ہو۔ گورنر سے اکثریت ثابت کرنے کیلئے چمپئی سورین کو ملنے والی 10 دنوںکی مہلت کا دورانیہ انتہائی اہم ہے۔اس دورانیہ میں انہیں ’اتحاد‘ کے ارکان اسمبلی کو ڈرا دھمکا کر یا ہارس ٹریڈنگ کے ذریعہ توڑنے کی ہرکوشش کو ناکام بناناہوگا۔
چمپئی سورین طاقت کے سامنے جھکنے کے بجائے اگر ہیمنت سورین کی طرح ہی سیاسی فراست کا استعمال کریں توبی جے پی کا طاقت کا مکروہ کھیل ناکام بنایاجاسکتا ہے۔
[email protected]
بی جے پی کا مکروہ کھیل !
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS