عرب مسلم ملکوں کی آنکھیں کھلتی جارہی ہیں ۔ دنیا ایک قطبی سے کثیر قطبی ہوتی جارہی ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیمیں اور رضاکار ادارے جس انداز اور سطح پر کام کررہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہreadPditikکی وجہ سے عالمی سیاست میں مسلمانوں کی اہمیت بڑھ سکتی ہے اور 57ملکوں پر مشتمل یہ طاقت کسی ایک ملک بلاک یا بلاکوں کے گروپ کا حصہ ہونے کے بجائے مقامی وعلاقائی سطح پر انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسا رول ادا کررہے ہیں جو سب کو قابل قبول ہو اور ان کے مفادات بھی محفوظ رہیں۔
مغربی ایشیا اور عرب ممالک کا ا یک اہم ملک مصر جو کہ مسئلہ فلسطین اور عرب اسرائیل سیاست میں اہم کھلاڑی ہے۔ امریکہ کا پچھلگو کے بننے کے بجائے ایک آزاد خارجہ پالیسی اختیار کررہا ہے۔ دو روز قبل مصر نے روس کے ساتھ تعلقات میں اہم مقام حاصل کرلیا ہے۔ دونوں ملکوں کے صدور نے مشترکہ طور پر مصر کے ساحلی شہر(الضبۃ)میں ایک نیو کلیئر پلانٹ کی تعمیرکا افتتاح کیا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے، مگر دیکھنے کے اعتبار سے یہ بڑی کارروائی تھی۔ اس پلانٹ کو روس کی سرکاری کمپنی رساتم بنا رہی ہے۔ جس پر تقریباً 30بلین امریکی ڈالر خرچ آنے کا امکان ہے۔ اس مجوزہ نیوکلیئر پلانٹ کے اندر چار پاور یونٹس ہوں گے اس طریقے کے اس نیو کلیئر پلانٹ سے مصر کو 4.8 میگاواٹ بجلی بنانے کی صلاحیت حاصل ہوجائے گی۔اس طرح 105 ملین آبادی والے مصرکو اپنی توانائی کے ضروریات کو پورا کرنے میں بڑی کامیاب ہاتھ لگے گی۔ ایک ترقی پذیر ملک کی طرح مصر کو بھی توانائی کی ضروریات حاصل کرنے کے لیے غیر روایتی ذرائع کی طرف توجہ دینی پڑرہی ہے۔ مذکورہ بالا نیوکلیئر پلانٹ بنانے کے لیے روس اور مصر کے درمیان 2015میں سمجھوتے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس پلانٹ کی تعمیر کے لیے روس نے قرض دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنگی گہما گہمی اور قرب وجوار کے کئی ملکوں میں خانہ جنگی اور خارجی فوجی کارروائیوں کے درمیان یہ خبر زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپائی، لیکن جس طرح مغرب اور امریکہ روس کو الگ تھلگ کرنے اور بین الاقوامی منظر سے غائب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس وقت معاہدہ ایسے موقع پر عملی جامہ پہنانے کی کوشش غیر معمولی پیش رفت ہے جو امریکہ کے لیے باعث تشویش ہے۔ مصرکی خارجہ پالیسی غیر معمولی دوراندیشی اور اپنے ملک کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تجویز بنائی گئی ہے۔ ورنہ کیا یہ ممکن تھا کہ کوئی بھی عرب ملک اسرائیل کے ساتھ ایسے وقت میں جب کوئی بھی مسلم ممالک اسرائیل کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ نفرت عروج پر تھا۔ 1978میں کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کرکے سفارتی تعلقات قائم کیا۔ خیال رہے کہ 1950کی دہائی میں جمال الناصر کے دور اقتدار میں معزول یو ایس ایس آر سے مصر کو کافی حمایت ملی تھی۔ 1955میں دونوں ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کے لین دین پر سمجھوتہ ہوا تھا مگر انو ر سادات نے اقتدار میں آنے کے بعد خارجہ پالیسی کا رخ موڑ دیا تھا۔
اس زمانہ میں مصر کے دور اندیش کے سفارت کاروں اور قائدوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنے ان خطوں کو آزا د کرالیا جن پر اسرائیل نے 1967کی پانچ دن کی جنگ کے بعد قبضہ کرلیا تھا۔ ودادیٔ سینا آج مصر کا آزاد اور اس کے اقتدار والا علاقہ ہے تو اس کا کریڈیٹ اسی دور اندیش قیادت کو جاتا ہے ۔ مصر نے تمام عرب ملکوں کی ناراضگی مول لے کر اسرائیل سے اپنے علاقوں کو آزاد تو کرالیا ہے، مگر اس نے کبھی بھی اسرائیل یا امریکہ نوازی کو اپنی عرب حیثیت پر حاوی نہیں ہونے دیا ہے۔ مصر کے ساتھ روس کے ہمیشہ سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ مصر نے دونوں طاقتوں کو ناراض نہیں کیا اور نہ ہی کسی ایک ملک کا دم چھلا بننا پسند کیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مصر میں موجودہ نظامی حکومت اگرچہ جمہوری سا لگتا ہے، مگر حقیقتاً مصر ایک صحت مند مضبوط جمہوریت نہیں ہے۔ پچھلے دنوں صدارتی انتخابات میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح کسی دوسرے صدارتی امیدوار کو میدان میں اترنے ہی نہیں دیا۔ اس طرح عبدالفتح السیسی کا بھاری اکثریت سے منتخب ہونا حیران کن نہیں تھا۔ اگرچہ مغربی ممالک کو مصر کے انتخابی نظام پر اعتبار نہیں ہے مگر پھر بھی کسی بھی ملک سے السیسی کے خلاف کوئی شدید رد عمل یا منفی بیان واضح طور پر سامنے نہیں آیا ۔ شاید اس کی وجہ سے غزہ پر اسرائیل کی جارحیت رہی ہو مگر پھر بھی مغربی ممالک نے موجودہ حکمراں کے تئیں کوئی سخت رد عمل نہیں دیا ہے۔
مصر کی حکومت غزہ میں اسرائیل کی جنگ روکنے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ قطر اور مصر مل کر اسرائیل کو جنگی بندی کرنے کے لیے کوشش کررہے ہیں، مگر موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو کے اڑیل رویے کی وجہ سے پورا خطہ اس وقت بارود کے ڈھیر پر ہے۔ ایسے حالات میں مصر کا رول کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ان ملکوں کی داخلی سیاست نے پڑے بغیر علاقے کی بڑی طاقتوں اور خارجی طاقتوں کو لگتا ہے کہ اگر مصر اپنا روایتی سفارتی رول اد ا کرے تو خطے میں قیام امن میںکچھ پیش رفت ہوسکتی ہے۔
روس کی طرف عربوں کا بڑھتا جھکائو
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS