عبدالماجد نظامی
سنگھ پریوار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہتمام سے اور وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں 22جنوری2024 کو رام مندر کا افتتاح جس جوش و جذبہ اور احساس فتح کے ساتھ کیا گیا، اس سے ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایک غیرمعمولی تاریخی واقعہ ہے جس کا وقوع اس ملک کی طویل تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ اس کا تاریخی ہونا کئی پہلوؤں سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اب ہندوستان کو جمہوریت کے اصولوں سے ہٹا کر تھیوکریسی کے راستہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ یہ بات جہاں ایک طرف اکثریتی طبقہ کے لیے خوشی و انبساط کا باعث ہوسکتی ہے، وہیں دوسری طرف اس میں اقلیتوں کے لیے بڑی فکرمندی کی بات ہے کیونکہ اس عمل سے اس کا صاف اشارہ ملتا ہے کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کا تخم بھی اس میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کا واضح اشارہ تو خود وزیراعظم کی تقریر میں ملتا ہے جس میں انہوں نے ’’کال کے چکر‘‘ کے بدلنے کی بات کہی ہے۔ اب ظاہر ہے نریندر مودی کی زبان سے جب ’’کال کے چکر‘‘ کی بات سامنے آ رہی ہے تو یہ کوئی معمولی اشارہ تو ہو نہیں سکتا۔ اس میں یقینا ایسے عہد کی آمد کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جس میں ایک خاص دشمن کے خلاف فتح کا احساس اکثریتی طبقہ کو دلایا جا رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران سے لے کر کابینی وزراء تک اس واقعہ کو تاریخی ہی نہیں بلکہ روحانی آزادی کا نقطۂ عروج قرار دے رہے ہیں۔ رام مندر کے افتتاح کو کس حد تک سنگھ پریوار اور بی جے پی کے حلقوں میں اہمیت دی جا رہی ہے اور اس کے ذریعہ سے پورے ملک اور سماج کے طرز فکر میں بنیادی تبدیلی لائی جا رہی ہے، اس کا اندازہ اس قرار داد سے لگایا جا سکتا ہے جس کو سرکاری سطح پر یونین کی کابینہ نے بدھ کے روز پاس کیا ہے۔ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ جب سے ہندوستان میں کابینی نظام کا آغاز ہوا ہے، تب سے کئی تاریخی کام انجام دیے گئے ہیں لیکن 22جنوری کو نریندر مودی نے جو کام انجام دیا ہے، تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ قرار داد جس کو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پڑھ کر سنایا تھا، اس میں رام مندر کے افتتاح اور نریندر مودی کے کردار کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے گویا کہ ہندوستان کا جنم ہی22جنوری کو ہوا ہو اور پہلی بار ہندوستانیوں نے آزادی کے حقیقی اثرات کو اپنے دل و دماغ پر محسوس کیا ہو۔ ایک ایسی آزادی جس کی معنویت 1947کی آزادی سے بھی کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس کابینی قرار داد کے مطابق1947کو تو صرف ہندوستان کا جسم آزاد ہوا تھا لیکن اس کی روح کو جو آزادی ملی ہے، اس کی تاریخ 22جنوری2024ہے۔ قرار داد کے اعتبار سے یہ مانا گیا ہے کہ نریندر مودی نے صدیوں کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا ہے۔ ایک ایسا خواب جس کو پانچ صدیوں سے ہندوستانی تہذیب اپنی آنکھوں میں سنبھال کر رکھے ہوئی تھی۔ خود نریندر مودی نے رام مندر کے افتتاح کو ہزار سال کی غلامی سے آزادی کی علامت قرار دیا ہے۔ ان باتوں کا کیا مطلب سمجھا جانا چاہیے؟ نریندر مودی کس غلامی سے آزادی کی بات کہہ رہے ہیں؟ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جس دشمن کے خلاف فتح کا جشن منایا جا رہا ہے اور جن سے آزادی کا راگ الاپ الاپ کر اکثریتی طبقہ کے ذہن و دماغ کو مسموم کیا جا رہا ہے، وہ اس ملک کے مسلمان ہیں۔ حالانکہ اسلام یا مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں کبھی بھی ہندوازم یا کسی خاص مذہب کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا۔ مغلیہ حکومت کے قیام میں کلیدی رول نبھانے والی تاریخی شخصیتوں نے بھی کبھی ہندوازم یا کسی دوسرے مذہب کو اپنی جنگی کوششوں کا حصہ نہیں بنایا، نہ ہی انہوں نے ہندوستان کو کبھی لوٹ کھسوٹ کی آماجگاہ بنایا جیسا کہ استعماری عہد میں کیا گیا۔ مغل جس دور میں ہندوستان آئے وہ نیشنلزم یا قومیت کا دور نہیں تھا اور نہ ہی سرحد کی لکیریں کھینچی ہوئی تھیں جہاں سے داخلہ صرف پاسپورٹ کی بنیاد پر ہوسکتا تھا، وہ عہد قوت کے توازن کے اعتبار سے دائرۂ حکومت کی توسیع کا عہد تھا اور ہندوستان اپنے خاص جغرافیائی محل وقوع اور زرخیزی و شادابی کی وجہ سے سینٹرل ایشیا و یوروپ کے طالع آزماؤں کی توجہات کا خاص مرکز بنتا تھا۔ اس میں مذہب کا رول شاذ و نادر ہوتا تھا۔ اگر مذہب کی بنیاد پر ہی جنگ و امن کا قضیہ حل ہوتا تو بابر کو ہندوستان آنے کی ضرورت نہ پڑتی اور مسلمان حکمراں اس دور میں بھی آپس میں باہم دست و گریباں نہ ہوتے۔ بابر اور ان کے بعد ہمایوں اور پھر اکبر کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ جنگ جہاں آرائی کے لیے تھی۔ اس دور میں دنیا کے تمام حصوں میں یہی کلچر غالب تھا۔ ہندو راجا مہاراجہ بھی جب اپنے ہندو مخالف راجاؤں پر حملے کرتے تھے تو ان علاقوں میں موجود مندروں کو توڑ دیتے تھے، اگر انہیں دھرم کی اتنی ہی فکر ہوتی تو بھلا مندروں کو مسمار کیوں کرتے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس دور میں مندروں کو سیادت و غلبہ کی علامت کے ساتھ ساتھ دولت کا مرکز بھی مانا جاتا تھا اور اسی لیے فاتح فوجیں خواہ وہ کسی بھی دھرم سے تعلق رکھنے والی ہوں، ایک دوسرے کے مذہبی مقامات کو نشانہ بناتی تھیں۔ لیکن اس معیار کو بھی اگر ذہن میں رکھا جائے تب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مغلوں نے ایودھیا میں کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد بنائی تھی۔ اس بات کی تائید خود سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ہوتی ہے جس کی بنیاد پر بابری مسجد کی جگہ آج رام مندر قائم کیا گیا ہے۔ تو آخر وزیراعظم کس فتح کا اعلان کر رہے ہیں اور وہ کون سی غلامی تھی جس سے آزادی کے دن کو ایک تاریخی واقعہ گردانا جا رہا ہے؟ اس کا تو صرف ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ خیالی تاریخ کی بنیاد پر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے اندر خوف پیدا کیا جائے اور انہیں ہر وقت جنونی اکثریت کے رحم و کرم پر جینے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اس کا مظاہرہ ممبئی، ناگپور اور ملک کے دیگر مقامات پر اس دن کیا بھی گیا جس دن رام مندر کا افتتاح عمل میں آیا۔ الگ الگ ڈھنگ سے جس طرح مسلم اقلیت کی جان و مال کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے اور انہیں خوف کے سائے میں جینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے، اس سے تو بس یہی پتہ چلتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں مسلم اقلیت کے پاس صرف دو راستے بچ جائیں گے کہ یا تو وہ اپنے دین و ایمان سے سمجھوتہ کرلے یا پھر اپنے ہی ملک میں تمام حقوق سے محروم ہوکر ایک اچھوت کی زندگی گزارے۔ کیا یہی وہ عہد ہے جس کی آمد کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے؟ ایک جمہوری ملک ہونے کے ناطہ ہمیں امید تھی کہ اس ملک کے وزیراعظم خود کو دستور کے دائرہ میں رکھتے اور مذہبی امور کو مذہب کے ماہرین کے حوالہ کر دیتے تاکہ ملک کے تمام طبقوں کو یہ حوصلہ ملتا کہ دستوری رہنمائی کے مطابق اسٹیٹ کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے اور وہ ہر مذہب سے یکساں دوری بنائے رکھنے کو ہی ایک کامیاب جمہوریت کی راہ میں مؤثر قدم قرار دیتا ہے۔ لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوا ہے، اس لیے یہ خدشہ بے وجہ نہیں ہے کہ اب اس ملک کے دستور کو بدل دیا جائے گا اور ایک نئے بھارت کا عملی طور پر آغاز ہوگا جس میں اقلیتوں کے حقوق کا کون محافظ ہوگا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکے گی۔ بہت ممکن ہے کہ اس مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے نظریاتی اتحادی آئندہ لوک سبھا انتخابات میں ملک کو ’’ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے وعدہ کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کریں۔ کیونکہ ایک خاص ماحول تیار کیا جا چکا ہے ، عوام کے ساتھ ساتھ جس ڈھنگ سے اس ملک کے کارپوریٹ، میڈیا، بالی ووڈ اور کھیل دنیا کے ستاروں کے علاوہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹسوں اور ججوں نے بڑھ چڑھ کر رام مندر کے افتتاح میں حصہ لیا ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ اس ملک میں جمہوریت کا جنازہ جلد ہی نکلے گا اور اس جنازہ کو تیار کرنے میں اس طرح کے تمام طبقات کا کردار یکساں ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]