اپوزیشن اتحاد’انڈیا‘ میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ بہت پہلے سے ہی لگا یا جا رہا تھا اور اب ممتا بنرجی کے بگڑے ہوئے تیوروں سے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ مغربی بنگال کی حکمراں جماعت کی سربراہ ممتا بنرجی کانگریس پارٹی کے طور طریقوں سے خوش نہیں ہیں ۔ دراصل بہت دنوں سے یہ بات زیر بحث رہی ہے کہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا سے اتحاد کی کئی پارٹیاں خوش نہیں ہیں۔ نیتش کمار نے پہلے ہی دبے الفاظ میں اس طرح کے نظریات کا اظہار کیا تھا مگر اب ممتا بنرجی نے نیائے یاترا کے مغربی بنگال میں داخل ہونے سے قبل اپنے تیور سخت کرلیے ہیں۔ ممتا بنرجی کا خیال ہے کہ راہل گاندھی کی یاترا اگر مغربی بنگال میں داخل ہوئی تو اس کا اثر مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس پر پڑے گا اور کانگریس پارٹی کی تنظیم میں ’’نئی جان‘‘ پڑنے سے ان کی پارٹی کے امکانات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے ۔ راہل گاندھی اس یاترا کو لے کر جوش وخروش میں ہیں اور منی پور کے بعد آسام میں ان کو کافی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔خود کانگریس کے اندر ممتا بنرجی کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کو لے کر کافی لیڈران میں خاص طور پر ادھیر رنجن چودھری اور ممتا بنرجی کے درمیان سخت کشیدگی ہے۔ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا رویہ راہل گاندھی کے تئیں ہمیشہ سے سخت اور توہین آمیز رہا ہے۔ دونوں لیڈروں میں آپسی اختلافات اس یاترا کے دوران مزید واضح ہوگئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ راہل گاندھی کی رویے ہی کی وجہ سے ہی بسواسرما نے کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
راہل گاندھی اور ان کا خاندان سابق وزیراعلیٰ آنجہانی ترون گگوئی کے قریبی رہا ہے اور ان کے بیٹے گورو گگوئی کے راہل گاندھی کے ساتھ ذاتی سطح پر اچھے تعلقات ہیں۔ گگوئی اور سرما کے درمیان ہمیشہ سے اختلاف رہے ہیں اور آسام میں کانگریس پارٹی کو اس ناچاقی کا بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بسوا سرما نے اسی وجہ سے کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ۔
ظاہر ہے کہ آسام میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کسی بھی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ بسوا سرما اتنی بڑی مسلم آبادی کے درمیان بی جے پی پیٹرن کو بھنانے میں اس وجہ سے کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ بی جے پی نے ہمیشہ آسام میں بنگلہ بولنے والے اور غیر ملکیوں کی گھس پیٹ ہی انتخابی ایشوز بنایا ہے۔آسام میں آسامی بولنے اور بنگلہ بولنے والوں میں شدید اختلافات رہے ہیں۔ اس تنازع کی وجہ سے آسام میں سیاسی صف بندی رہی ہے اور اس نے کئی مرتبہ پر تشدد روپ بھی اختیار کرلیا تھا جبکہ بی جے پی کی ’’بنگلہ دیشی گھس‘‘ پیٹیوں کے خلاف مہم کا اثر پورے ہندوستان میں محسوس کیا گیا تھا، بی جے پی تو خاص طور پر آسام اور شمال مشرقی علاقوںمیں اسی بنیاد پرسیاسی مہم چلاتی رہی ہے۔ ہیمنت بسوا سرما جس زمانے میں کانگریس میں تھے ان کی گرفت تنظیم پر کافی مضبوط تھی۔ اسی گرفت کی وجہ سے وہ ترون گگوئی کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بی جے پی نے ان کی تنظیمی صلاحیتوں اور زبان درازی و جارحانہ انداز کا فائدہ اٹھایا، آسام میں شرما کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اور پورے ملک میں راہل گاندھی کے خلاف بیان بازی میں بسوا سرما پیش پیش ہیں۔ ظاہر ہے کہ آسام میں پہنچنے پر حکمراں بی جے پی اور ذاتی طور پر بسوا شرما پر راہل گاندھی کے بیانات کی آنچ محسوس کی گئی ہوگی ، اسی لیے راہل گاندھی کی یاترا میں کئی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ گزشتہ شب آسام حکومت نے راہل گاندھی کے خلاف تشدد برپا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ اس طرح راہل گاندھی کے خلاف بی جے پی کی قیادت والی محاذ اور خود انڈیا محاذ میں کافی مخالفتوں کی آوازیں بلند ہونی شروع ہوگئی ہیں۔ اس دوران ممتا بنرجی نے اعلان کردیا ہے کہ وہ مغربی بنگال میں اکیلے ہی الیکشن لڑیں گی۔ ظاہر ہے کہ علاقائی سطح پر اس طرح کے اختلافات قومی سطح پر کانگریس پارٹی بطور خاص انڈیا اتحاد کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ اس سے قبل بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے بھی شمال مشرق سے شروع ہونے والی بھارت جوڑو یاترا اوردوسرے مرحلے بھارت جوڑو نیائے یاترا کو شروع کرنے کے خلاف تھے۔ نتیش کمار کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی کو سیٹوں کی تقسیم کے مرحلے سے گزر کر بحیثیت انڈیا اتحاد کے کام کرنا چاہیے نہ کہ الیکشن کے اتنے قریب آنے پر نیائے یاترا شروع کرنی چاہیے تھی۔ ان کی رائے تھی کہ اس مرحلے پر انفرادی سطح پر کسی بھی پارٹی کو مہم شروع نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس سے ان کو لگتا ہے کہ اتحاد کے لیے مجموعی امکانات کو ٹھیس پہنچے گی۔ مگر راہل گاندھی اپنے پروگرام کے مطابق نیائے یاترا میں مصروف ہوگئے ہیں۔ انڈیا اتحاد کے سربراہ کے طور پر ملکا ارجن کھرگے کا نام پہلے ہی فائنل ہوچکا ہے اور کوئی بھی پارٹی یا لیڈر اتحاد کے کنوینر کے نام پر متفق نہیں ہوپایا ہے۔ نتیش کمار نے اس عہدے کے لیے اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ شاید ان کی ناراضگی ابھی بھی برقرار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس پارٹی مجموعی طور پر انڈیا اتحاد موجودہ ناچاقی سے کس طرح سے نمٹتی ہے۔ اس دوران کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے ممتا بنرجی کے ساتھ اختلافات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہوئے کہاہے کہ وہ ذاتی طور پر ممتا بنرجی کے زیادہ قریبی ہیں۔
دراصل کانگریس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج علاقائی پارٹیوں کو ناراض کیے بغیر اپنی پارٹی کے قومی مقام کو برقرار رکھنے کا ہے۔ کوئی بھی علاقائی پارٹی اپنے اثروالے صوبے میں کانگریس کو بڑھتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی ہے۔ یہ چیلنج اترپردیش ، بہار اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں پیش آسکتا ہے۔
اپوزیشن اتحاد’ انڈیا‘ میں شدید ہوتے اختلافات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS