ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات صدیوں پرانے ہیں۔ افغانوں کا ذکر ہندوستان کے ادب میں بھی ملتا ہے۔ عام افغانوں کی نظر میں ہندوستان ہمیشہ ہی ایک خاص ملک رہا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ سیاست داں بدلتے ہوئے حالات کی مناسبت سے اقدامات کرتے ہیں مگر عام لوگوں کے دل جلدی نہیں بدلتے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں حکومت کسی کی بھی رہی ہو، ہندوستان کے تئیں اس حکومت کا کچھ بھی نظریہ رہا ہو مگر عام لوگوں کی نظروں میں ہندوستان کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ کیا اس بات سے موجودہ طالبان حکومت ناواقف ہوگی؟ بالکل نہیں، اس لیے ہندوستان کا افغانستان کے لیے بے حد سخت رخ نہ رکھنا اور اس کے کسی نمائندے کو اپنی اہم تقریب میں شرکت کی دعوت دینا،ٹھیک ہی ہے۔ اسی لیے یہ بات باعث حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ متحدہ عرب امارات میں ہندوستان کے سفارت خانے نے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کے لیے طالبان کے سفیر بدرالدین حقانی کو مدعو کیا ہے۔ بدرالدین حقانی متحدہ عرب امارات میں طالبان کے سفیر ہیں۔ بدرالدین حقانی افغانستان کے موجودہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے بھائی ہیں، اس لیے یوم جمہوریہ کی تقریب میں بدرالدین حقانی کو مدعو کیے جانے سے اس امکان کا پیدا ہونا فطری ہے کہ ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات استوار ہو رہے ہیں۔ تعلقات کی استواری کی امید اس لیے بھی کی جا رہی ہے کہ ہندوستان نے کابل میں پھر سے کھولے گئے سفارت خانے کے لیے تکنیکی ٹیم بھیجی ہے اور یہ بذات خود اس کے موقف میں تبدیلی کا اشارہ لگتی ہے۔
بدرالدین حقانی کو مدعو کیے جانے پر ہندوستانی عہدیداروں کے حوالے سے خبر یہ آئی ہے کہ یہ روٹین کا حصہ ہے، ہندوستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے مگر افغان صحافی بلال سروری نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ’طالبان اور وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے درمیان تعلقات ہر سطح پر بہتر ہوئے ہیں۔ اب متحدہ عرب امارات میں ہندوستانی سفارت خانے نے طالبان کے سفیر بدرالدین حقانی اور ان کی اہلیہ کو دعوت نامہ بھیجا ہے، توقعات سے بڑھ کر یہ ایک اہم تبدیلی ہے جو ہندوستان اور طالبان کو قریب لاتی ہے۔‘ ان کے مطابق، ’پی ایم مودی کی قیادت میں نہ صرف کابل بلکہ اہم علاقوں کی راجدھانیوں میں بھی طالبان کے ساتھ تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔‘مگر یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ہندوستان نے سفارتی سطح پر طالبان کے اقتدار کو اب تک منظوری نہیں دی ہے اور کب تک منظوری دے گا، اس پر فی الوقت کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔
ہندوستان اور افغانستان کے مابین تعلقات اگر استوار ہوتے ہیں تو یہ دونوں ملکوں کے لوگوں کے حق میں ہوگا۔ اس سے افغانستان میں تجارت کرنے والوں کو فائدہ ہوگا اور حکومت افغان کے لیے اقتصایات کو پٹری پر لانا آسان ہوجائے گا۔ افغانستان میں نئے پروجیکٹوں کے شروع کرتے وقت بھی اسے یہ اطمینان رہے گا کہ ہندوستان اس کے ساتھ ہے، کیونکہ امریکہ کی افغان جنگ کے دوران ہندوستان نے افغانستان کی تعمیرنو اور افغانوں کی سہولتوں کے لیے وہاں بہت کام کیا ہے۔ جنگ کے دوران اس خطے میں سب سے زیادہ عطیہ ہندوستان نے ہی دیا تھا جبکہ مجموعی طور پر وہ پانچ بڑے عطیہ دہندگان میں شامل تھا، البتہ طالبان کے افغانستان کے اقتدار پر قبضہ جماتے ہی حالات بدل گئے۔ اس وقت پاک حکومت سے اس کی زیادہ قربت تھی مگر قربت کا بھرم ٹوٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ یہ بات اس کی سمجھ میں آنے لگی کہ پاکستان، افغانستان کے حالات سے بس فائدہ اٹھاتے رہنا چاہتا ہے۔ افغانستان کے حالات کا خیال اسے نہیں ہے۔ اگر حالات کا خیال ہوتا تو وہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے میں اتنا وقت ضرور لیتا کہ افغانستان کے حالات بہتر ہوجاتے۔ ادھر حالات بہتر بنانے کے لیے افغان حکومت نے چین کی طرف رجوع کیا ہے۔ چین نے بھی افغانستان کے حالات میں دلچسپی دکھائی ہے مگر افغان حکومت چین کی توسیع پسندی سے واقف ہے۔ وہ افغانستان کو پاکستان بنانا کبھی نہیں چاہے گی، چنانچہ یہ بات اس کے لیے ناقابل فہم نہیں ہے کہ ہند-افغان تعلقات افغانستان اور اس کے لوگوںکے ہی حق میں ہیں۔
[email protected]
استوار ہونے لگے ہند-افغان تعلقات؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS