اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں سچائی چھپانے کی کوشش مرکز کی مودی حکومت کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس کام کیلئے کئی ایجنسیاں اور ادارے تعینات ہیں جو طرح طرح کے ڈیٹا، گراف، چارٹ، بار اور لائن کھینچ کر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندوستان ترقی کی سدرۃ المنتہیٰ سے فقط چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ بس چند دنوں کی بات ہے، اگر ہندوستان کے عوام مودی جی کا تھوڑا ساتھ اور دیں تو یہ فاصلہ بھی سمٹ جائے گا اور ترقی کے گل و ثمر سمیٹنے کیلئے دامن تنگ پڑ جائیں گے۔ ایسا ہی ایک ادارہ ’نیتی آیوگ‘ بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کثیر جہتی غربت تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ 24.82 کروڑ افرادغربت کے دائرہ سے باہر آگئے ہیں۔نیتی آیو گ نے اسی ہفتہ ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ 2013-14 سے 2022-23 تک 9برسوں میںیعنی مودی جی کے اقتدار میں آنے کے دوران ہندوستان کے 24.82 کروڑ لوگ کثیر جہتی غربت سے باہر نکل آئے۔ ان 9برسوں کے دوران کثیر جہتی غربت میں سب سے زیادہ کمی اترپردیش، بہار اور مدھیہ پردیش میں ریکارڈ کی گئی۔
نیتی آیوگ کے مطابق ہندوستان میں کثیر جہتی غربت 2013-14 میں 29.17 فیصد تھی جو 2022-23 میں کم ہوکر 11.28 فیصد ہوگئی ہے جس کے بعدتقریباً 24.82 کروڑ لوگ خط غربت سے بالا چلے گئے ہیں۔ ان 9 برسوں میں اتر پردیش میں 5.94 کروڑ لوگ کثیر جہتی غربت سے باہر آئے۔ بہار میں 3.77 کروڑ، مدھیہ پردیش میں 2.30 کروڑ اور راجستھان میں 1.87کروڑ افرادکثیر جہتی غربت سے باہر آچکے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2015-16 سے2019-21کے درمیان غربت کے تناسب میں کمی کی رفتار 2005-06 سے2015-16 کے عرصہ کے مقابلہ میں بہت تیز یعنی 7.69فیصد سالانہ سے بڑھ کر 10.66 فیصد سالانہ رہی ہے۔نیتی آیوگ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہندوستان 2030 سے پہلے کثیر جہتی غربت کو آدھا کرنے کے اپنے ہدف کو حاصل کر لے گا۔
بظاہر یہ اعدادوشماربڑے خوش کن نظر آرہے ہیں لیکن ان کی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ غربت اور کثیر جہتی غربت میں وہی فرق ہے جو آلو اور آلو بخارا کے درمیان ہے۔ عام محروم انسانوں کیلئے آلوبخارا کا عدم اور وجود کوئی معنی نہیں رکھتا ہے لیکن آلو اسی عام محروم انسان کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے غریب، پسماندہ، محروم محنت کش عوام کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان کی بنیادی ضرورت کا پورا نہ ہونا غربت ہے لیکن کثیر جہتی غربت کے اہداف میں روٹی، کپڑا، مکان کی حیثیت ثانوی غذائیت، بچوں اور نوعمروں کی شرح اموات، زچگی کی صحت، اسکول کی تعلیم کے سال، اسکول میں حاضری، کھانا پکانے کا ایندھن، صفائی، پینے کا پانی، بجلی، رہائش، اثاثے اور بینک اکاؤنٹس اورمعیار زندگی وغیرہ کو ترجیح حاصل ہے۔
ان ہی معیار کو ہدف بناکر نیتی آیوگ نے یہ ڈیٹا اکٹھا کیا ہے اوراس کی دلیل کے طور پر ان اسکیموں کا ذکر کیا ہے جو مودی دور حکومت میں شروع کی گئی ہیں۔غریبوں کے خالی بینک اکائونٹ کو دائرہ غربت سے نکاسی کا سبب ماننے والے نیتی آیوگ نے پردھان منتری جن دھن یوجنا کی تعریف کی ہے۔ ’پوشن ابھیان‘ اور ’ انیمیا مکت بھارت‘ اسکیم کے نفاذ کو صحت کی سہولیات تک رسائی میں نمایاں اضافہ اور محرومیوں میں کمی کا سبب بتایا ہے۔اسی طرح ماؤں کی صحت کے مختلف پروگرام، اجولا یوجنا کے ذریعے صاف کھانا پکانے کے ایندھن کی تقسیم، ’سوبھاگیہ ‘ اسکیم کے ذریعے بجلی کی کوریج میں بہتری اور ’سوچھ بھارت مشن‘ اور’ جل جیون مشن‘ جیسی اسکیموں کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے انہیں مجموعی بہبود کا انقلابی قدم قرار دیا ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کی مذکورہ تمام اسکیمیں وہ مقاصد اب تک حاصل نہیں کر پائی ہیں جن کیلئے وہ نافذ کی گئی تھیں، اس کے برخلا ف سی اے جی رپورٹ میں ان اسکیموں پر خرچ ہونے والی رقوم اور نتائج میں افراط و تفریط پر گرفت کی گئی ہے۔ ہندوستان میں غربت کا بنیادی سبب بے روزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے نیتی آیوگ نے ایک لفظ نہیں کہا ہے اور نہ ہی اس کا ذکر کیاگیا ہے کہ ہندوستانی غریب کی فی کس آمدنی میں کس شرح سے اضافہ ہوا ہے یا یہ کہ ان کی آمدنی اور بنیادی ضرورت کی اشیا پر ہونے والے اخراجات کا تناسب کیا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں فی کس آمدنی میں اضافے کی شرح گزشتہ دس برسوں کے دوران کم ہو تی آئی ہے، روزگار کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ مالیاتی ترقی کی عدم مساوات خوفناک حد تک بڑھی ہوئی ہے۔
نیتی آیوگ کی یہ رپورٹ، اعدادوشمارکا دورانیہ، سابقہ دور سے ان کا موازنہ اور مرکزی اسکیموں کی تعریف و توصیف یہ بتاتی ہے کہ اس کا مقصد معاشی تجزیہ اور غربت کے انسداد کی کوششوں کا جائزہ لینے سے کہیںزیادہ آنے والے لوک سبھا انتخاب کیلئے مودی حکومت کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ورنہ آلو اور آلوبخار اکے فرق کو نیتی آیوگ بھی اچھی طرح سمجھتا ہے۔
[email protected]
آلو کو آلو بخارا بنانے کی کوشش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS