لوک سبھا انتخابا ت میں سیٹوں کی تقسیم ’انڈیا‘ کیلئے بڑا چیلنج

0

نئی دہلی(ایجنسیاں): 25 اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ’انڈیا‘ کی بھلے ہی 4 میٹنگیں ہوچکیں،بظاہر اوپرسے سب کچھ معمول پر نظر آرہاہے اورمیٹنگ آسانی سے ہورہی ہے، لیکن سیٹوں کی تقسیم کے معاملہ پر اتحادی پارٹیوں کی طرف سے جس طرح سے بیانات آرہے ہیں، اس سے معاملہ پیچیدہ نظر آرہاہے۔ شیوسینا (یو بی ٹی) کے رہنما سنجے راؤت نے کہاہے کہ مہاراشٹر کی لوک سبھا سیٹوں کی تقسیم آسان نہیں ہوگی۔ راؤت نے جمعہ کو کہا کہ کانگریس کو سیٹوں کی تقسیم پر بات چیت صفر سے شروع کرنی چاہئے،کیونکہ اس نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ریاست میں ایک بھی سیٹ نہیں جیتی تھی۔

سنجے راؤت نے کہا کہ ہماری پارٹی نے کانگریس کے سینئر لیڈروں کو بتایا ہے کہ جن سیٹوں پر شیوسینا باقی سیٹوں کے بارے میں فیصلہ ہونے کے بعد بات کی جائے گی۔ راؤت کے اس موقف سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پارٹی ان سیٹوں پر سمجھوتہ کرنے کو بالکل تیار نہیں ہے، جن پراس نے 2019کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔راؤت نے کہا کہ یہ مہاراشٹر ہے اور شیوسینا یہاں کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ کانگریس ایک قومی پارٹی ہے۔ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ شیوسینا ہمیشہ لوک سبھا انتخابات میں یہاں کی تمام 23 سیٹوں پر لڑتی رہی ہے۔

ادھو ٹھاکرے اور کانگریس کے سینئر لیڈروں کے درمیان اس حوالے سے مثبت بات چیت ہوئی ہے۔شیوسینا نے 2019 کا لوک سبھا الیکشن بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑا تھا اور 18 سیٹیں جیتی تھیں،تاہم چند ماہ بعد پارٹی میں پھوٹ پڑگئی تھی۔ پچھلے سال، ایکناتھ شندے کی سربراہی میں پارٹی کے زیادہ ترممبران پارلیمنٹ اوراسمبلی نے علیحدگی اختیار کرکے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرلیا تھا۔

دوسری طرف، ٹی ایم سی کی سربراہ اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے جمعہ کو کہا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ریاست میں بی جے پی کو صرف ٹی ایم سی ہی ٹکر دے سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ’انڈیا‘ہو گا۔بنگال میں ٹی ایم سی لڑے گی اور بی جے پی کو شکست دے گی۔سنجے راؤت اور ممتا بنرجی کے بیانات سیٹ شیئرنگ کو لے کر میٹنگ سے پہلے آئے ہیں۔ یہ میٹنگ جنوری میں ہونے کی بات ہو رہی ہے۔
مہاراشٹرمیں 48تو مغربی بنگال میں لوک سبھا کی 42 سیٹیں ہیں۔’انڈیا‘ میں شامل جماعتوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ سیٹوں کی تقسیم ہے۔ اتحاد میں شامل زیادہ تر پارٹیاں کانگریس پر زیادہ سیٹیں چھوڑنے کیلئے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیاسی حالات کے پیش نظر کانگریس تقریباً 310 سیٹوں پر الیکشن لڑ سکتی ہے اور اپنے اتحادیوں کیلئے تقریباً 230 سیٹیں چھوڑ سکتی ہے۔کانگریس اور بی جے پی کے درمیان گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک، ہریانہ، آسام، چھتیس گڑھ، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش، اروناچل پردیش، چنڈی گڑھ اور گوا میں سیدھا مقابلہ ہوسکتا ہے۔ یہاں کانگریس کو چھوڑ کر ’انڈیاکی 25 پارٹیوں میں سے کسی کا زیادہ اثر نہیں ہے۔ اس لئے اتحاد دیگر ریاستوں میں ہوسکتاہے۔کانگریس نے 19 دسمبر کو 5 رکنی قومی اتحاد کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی میں سابق مرکزی وزیر مکل واسنک، راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت، چھتیس گڑھ کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل، موہن پرکاش اور سلمان خورشید کے نام شامل ہیں۔’انڈیا‘کے وزیر اعظم کے چہرے پر بھی پارٹیاں متفق نہیں ہیں، حالانکہ چوتھی میٹنگ 19 دسمبر کو دہلی میں ہوئی۔ اس میٹنگ میں ممتا بنرجی نے کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کو اتحاد کی طرف سے وزیر اعظم کا امیدوار بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔

مزید پڑھیں: بی جے پی کو اقتدار سے ہٹا کر ملک کو برباد ہونے سے بچانا ضروری

دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال نے اس تجویز کی حمایت کی۔ بعد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں نتیش کی غیر حاضری کو لے کر قیاس آرائیاں تیز ہوگئیں۔ کہا جاتاہے کہ نتیش کمار ناراض ہیں اور وقت سے پہلے ہی میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے، حالانکہ بعد میں انہوں نے اس کی تردید کی، لیکن حالات بتاتے ہیں کہ سیٹ شیئرنگ، اتحاد کے کنوینر اوروزیراعظم کے امیدوار پر کچھ نہ کچھ اختلافات ضرور ہیں، جن پر قابوپانا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS