نوازشریف کا کرب

0

مملکت خدا داد کے سابق وزیراعظم اور اہم ساسی جماعت کے قائد نواز شریف نے اپنے دل کا درد بیان ہی کردیا۔ انہوںنے اپنی سیاسی جماعت کے خطبہ میں ہندوستان کی ترقی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ پڑوسی ملک چاند پر پہنچ چکا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم ابھی تک زمین سے ابھرے نہیں ہیں یہ نہ صرف نواز شریف کا کرب نہیں ہے بلکہ اس نظریہ کی تردید ہے جس نظریہ پر یہ مملکت خدا داد قائم ہوئی۔ پاکستان مذہب کی بنیاد پر ایک الگ ملک بنا یہی فساد کی جڑ ہے، اگر فرقہ واریت، علاقہ واریت اور مفادات پرستی سے بالا تر ہو کر ملک کے مفاد ات میں کام کیا جائے تو کوئی بھی ملک ترقی اور خوشحالی کے مدارج طے کرسکتا ہے۔ یہ بات ہندوستان پر صادق آئی ہے۔ اگرچہ 1947میں ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے اور مسلمانوں کا ایک طبقہ جو بہر صورت ایک آزاد ملک بنانے پر کمر بستہ تھا اپنے تمام تر مستقبل کے امکانات کو خارج کرتے ہوئے الگ ملک تو بن گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک آج بھی انہیں محدود حاشیوں میں بٹا ہوا ہے ، جو 1947میں بنائے گئے تھے۔ تصور کی کیجئے کہ آج اگر ہندوستان ایک غیر منقسم اکائی ہوتا تو اس کا مقابلہ دنیا کی کونسی طاقت کرسکتی تھی۔ امریکہ جو اپنی مادی ترقی اور فوجی طاقت پر پوری دنیا پر حکومت چلانے اور پوری دنیا کو اپنے انگلیوں کا حوصلہ رکھتا ہے تو کیا آج غیر منقسم طاقت کے سامنے آنکھیں دکھا پاتا۔ پاکستان کی حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ ایک غلطی جو 1947میں ہوگئی تھی ان کا نتیجہ 1971میں دیکھنے کو ملا اور پاکستان ایک پھر تقسیم ہوا۔ اس دفعہ کی تقسیم ایک اور محدود سیاسی نقطۂ نظر یعنی زبان پرستی پر مبنی تھی۔ پاکستان کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ کب تک غیر حقیقی منزلوں کی تلاش میں سرگرداں رہیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد ہی ان محدود نظریات پر پڑی تھی ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت طبقہ یا پارٹی وسیع تر مفادات اور بڑے منصوبوں ، منشوروں کے ساتھ سامنے آتی ہے ۔ اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، اگرچہ پاکستان ایک علیحدہ ملک ہے ہمیں ہندوستان میں بیٹھ کر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے مگر ہندوستان کے ہر انصاف پسند سب کو ساتھ لے کر چلنے والے طبقات کے دلوں میں یہ کرب ابھی بھی برقرار ہے کہ اگر سانحہ ٔ تقسیم نہیں ہوتا توکیا آج کے حالات بہتر نہ ہوتے۔ 1947میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ غیر مناسب اور شاطرانہ عزائم پر مبنی تقسیم انگریزوں کی اشارے پر ہوئی تھی ان کے مفادات کو مد نظررکھتے ہوئے کی گئی تھی اور اس کا فائدہ بھی انگریزوں کو ہوا جو ہندوستان میں قتل وغارت گیری کا بازار گرم کرتے رہے اور یہاں کے معدنی ذخائر اور اہم چیزیں لوٹ کر لے گئے اور کوئی ان سے سوال نہ پوچھے اس لیے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے ایسے سرحدی تنازعات چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔ یہی وطیرہ برطانیہ نے مغربی ایشیا میں اختیار کیا جہاں قبائلی اور نسلی اختلافات کا فائدہ اٹھا کر اتنی بڑی طاقت کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ۔ آج مغربی ایشیا کا حال ہمارے سامنے ہے۔ 70دنو ںکی جنگ میں 20ہزار سے زائد معصوم بچے اور عورتیں اور عام شہری لقمہ اجل بن گئے ہیں، قبرستان بھر گئے ہیں ، فلسطین کے رضا کار لاشو ںکو سڑکو ںکے کنارے اور ڈیوائیڈر کھود کر دفن کررہے ہیں اور پوری دنیا سفارتی اور افہام وتفہیم کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ پاکستان کے لیے ابھی وقت گزرا نہیں ہے ۔ بشرطیکہ تمام سیاسی پارٹیاں اور مسالک ، علاقائی وابستگیوں اور قبائلی ترجیحات کو چھوڑ کر اگر ایک صحت مند جمہوری نظام کو اختیار کرلیں تو شاید کوئی ایسی سبیل نکلے جس سے آپسی ٹکرائو ، چھین جھپٹ اور زمیندارانہ نظام کا دور ختم ہو۔ نواز شریف جلا وطنی کی ایک طویل مدت گزار کر واپس پاکستان آئے ہیں۔ ان کے دل میں اپنے وطن سے دور رہنے کا کرب ہوگا۔ اگرچہ برطانیہ میں تمام سہولیات مراعات حاصل ہیں اور وہ پرسکون زندگی گزار سکتے تھے، مگر ایک ذمہ دار سیاست داں کی حیثیت سے وطن واپس آنا پڑا۔ وہ اپنے تجربات کو ایک ایسے عز م مصمم میں ڈھال سکتے ہیں جو ملک کو ایک نئی اساس دے۔ محنت ، لگن اور اخلاص تمام کمزوریوں کو دور کرسکتا ہے۔ نواز شریف کو احساس ہے کہ پاکستان کے موجودہ صورتحال کے لیے وہ خود ذمہ دارہیں۔ انہوںنے اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ 2023میں جب دنیا چاند ستارے چھونے کی تگ ودو میں لگی ہوئی ہے تو ان کا ملک بجلی کی کٹوتی سے پریشان ہے۔ ظاہرہے کہ بجلی کی فراہمی ایک واحد مسئلہ نہیں ہے مگر اس مسئلہ کو حل کرکے کئی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ آج کے دور میں بجلی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر صنعتی ترقی ، فرد کا چین وسکون ممکن نہیں ہے۔ 2013جب سابق وزیراعظم برسراقتدار تو آئے تو تب بھی یہی صورت حال تھی۔ انہوںنے اس وقت بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لیے ایک نعرہ دیا تھا اور اسی بنیاد پر ان کو عوامی حمایت بھی حاصل ہوئی تھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان مسلکی ، علاقائی اور نظریاتی اختلافات کو بالا تر رکھ کر ایک ایسے ترقیاتی منشور پر عمل پیرا ہو جوکہ اس کے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں معاون ومددگار ہو۔ پچھلے دنوں یہ بھی دیکھا گیا کہ پاکستان میں غذائی اجناس کی شدید قلت تھی۔ غیر منقسم ہندوستان کا غلہ پوری کو جاتا تھا۔ ہندوستان سے الگ ہونے والے اس خطے میں بھی وسائل کی نہ تو کمی ہے اور نہ ہی افرادی قوت کا کوئی بحران۔ بس اگر ضرورت ہے تو ترجیحات کو از سر نو طے کرنے کی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سیاست داں ایک دوسرے کو ٹھکانے لگانے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں ان کو عوامی مسائل کی پرواہ ہی نہیں رہتی۔ نواز شریف انگلستان کے سیر کرکے واپس آئے ہیں ۔ انہوںنے آنے سے قبل اپنی سیاسی حکمت عملی طے کی ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو سدھار کرملک کو ایک مثبت منشور کی طرف آنے کی دعوت دیں۔ نواز شریف ہی کیا پاکستان کے تمام سیاست دانوں کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کب تک ماضی کے گرد وغبار میں لپٹے رہے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS