کیا کانگریس کی آنکھ کھل گئی ہے ؟

0

مرکزی سرکار کو چیلنج دینے والا اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد انڈیا آہستہ آہستہ گزشتہ دنوں پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے صدمے سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ بنیادی طور پر ان انتخابات میں سب سے زیادہ مایوسی کا شکار کانگریس پارٹی تھی کیونکہ اس نے دو ریاستوں چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اپنی حکومت گنوائی ہے جبکہ ایک اور ریاست مدھیہ پردیش میں جہاں اس کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں پارٹی وہاں اپنی سرکار بنانے میں ناکام رہی ہے۔ ان تینوں ریاستوں میں شکست کے بعد این ڈی اے عزائم کو جھٹکا لگا ہے۔ ان انتخابات میں انڈیا الائنس نے مشترکہ امیدوار کھڑے نہیں کیے تھے اور بنیادی طور پر کانگریس پارٹی اکیلے ہی الیکشن لڑ رہی تھی۔ کئی حلقوں میں کئی اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کانگریس پارٹی کی غیر حقیقی خواہشات کی وجہ سے ہی پارٹی کو اس خسارے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس سلسلہ میں مدھیہ پردیش میں کانگریس کے لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ کا وہ بیان بار بار پیش کیا جا رہا ہے، جس میںانہوںنے سماجوادی پارٹی کے لیڈر اور اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے لیے کافی توہین آمیز زبان استعمال کی تھی ۔ خیال رہے کہ مدھیہ پردیش میں یادو کا اچھا خاصا ووٹ ہے اور اگر کانگریس پارٹی دو چار سیٹوں پر سماجوادی یا بہوجن سماجوادی پارٹی کے ساتھ مقامی سطح پر یا ریاستی سطح پر کوئی تال میل کرلیتی تو شاید نتائج اس قدر مایوس کن نہ ہوتے۔ اس کے علاوہ ایک فائدہ اور ہوتا کہ صوبائی سطح پر سمجھوتے یا تال میل کا فائدہ قومی سطح پر ہوجاتا اور دونوں پارٹیوں میں روابط بہتر ہوتے۔ یہی بات راجستھان کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔راجستھان میں اگر چہ کانگریس پارٹی کی حکومت تھی مگر کانگریس پارٹی کے مختلف لیڈر بطور خاص اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ بی جے پی سے زیادہ ایک دوسرے سے دست وگریباں نظرآئے اور ان دونوں نے بھی کسی بھی سطح پر دیگر چھوٹی پارٹیوں سماجوادی ، عام آدمی پارٹی اور بی ایس پی سے کوئی تال میل یا گفت وشنید نہیں کی۔ یہ شاید کانگریس پارٹی کی خمیر میں شامل ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوتی ہے تو چھوٹی پارٹیوں او رمقامی سطح پر سرگرم جماعتوں کو اہمیت نہیں دیتی ہے۔ اس کا خمیازہ راجستھان میں بھی بھگتنا پڑا۔
چھتیس گڑھ میں کانگریس سرکارکا جانا اپنے آپ میں بہت بڑاصدمہ تھا۔ بھوپیش بگھیل وزیراعلیٰ کے طور پر بہت شاندار طریقے سے حکومت چلا رہے تھے ان کی پالیسیاں بی جے پی کو تنگ کرنے والی تھیں، مگر جس طریقے سے الیکشن سے قبل ان کے قریبی لوگوں کو مرکزی ایجنسیوں نے گھیر نا شروع کیا تو اس سے بھی کافی اثر پڑا۔ ابھی پارٹی چھتیس گڑھ شکست کے پس پشت اسباب کا پتہ لگانے کی کوشش کررہی ہے، مگر اس کا نقصان قومی سطح پر انڈیا الائنس کو بھگتنا پڑا ہے۔ نتیش کمار کانگریس پارٹی کے تکبر پر ناراض ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار کے اسمبلی الیکشن میں انڈیا اتحاد اس دراڑ کو کیسے دور کرتا ہے۔ اس دوران یہ بھی خبریں آئی ہیں کہ بہار کے حلیفوں میں شاید کچھ اختلافات ہیں۔
کئی حلقوں میں نتیش کمار اور لالو یادو دونو ںکی ناراضگی کی خبریں سامنے آئی تھیں، اگرچہ دونوں نے ان خبروں کی تردید کی ہے لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ راہل گاندھی نے روز قبل ہونے والی میٹنگ کے بعد بہار کے لیڈروں سے ملاقات کرکے ان اختلافات کو ختم کرنے اور نئے سرے سے اور نئے جوش وخروش کے ساتھ لوک سبھا انتخابات کی تیاری کرنے پر زور دیا ہے۔ کچھ حلقوں میں یہ خبریں بھی گشت کررہی ہیںکہ اتحاد کی تمام پارٹیاں ریاستی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تال میل بڑھائیں گی تاکہ ان صوبوں میں مشترکہ امیدوار کھڑے کرنے اور ایک متحد پلیٹ فارم تیار کرنے میں آسانی ہو۔ اپوزیشن اتحاد کا فارمولہ ہے کہ بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کا صرف ایک ہی امیدوار کھڑا ہو تاکہ بی جے پی کو براہ راست شکست سے دوچار کیا جاسکے۔
ظاہر ہے کہ اس کے لیے بہت ہی زمینی سطح پر کام کرنے کا ضرورت پیش آئے گی اور اس پوری مشق میں مقامی اور ریاستی سطح کے لیڈروں کو ایک دوسرے کے ساتھ تال میل کرنے اور بات چیت کرنے کی زیادہ موقع ملے گا۔ یہ رائے کسی حد تک عملی ہے کیونکہ قومی سطح پر دوچار دن کی میٹنگ میں تمام ریاستوں میں لوک سبھا کے الیکشن کے لیے مشترکہ امیدوار کھڑا کرنا مشکل ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اترپردیش میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی یا دیگر اپوزیشن اتحادی لیڈر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر امیدوار طے کریں۔
اسی طرح بہارمیں کانگریس آر جے ڈی اور جنتا دل یو کے لیڈر تمام ممکنہ فریقوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر سیٹوں پر اپنے آپ ہی فیصلہ کریں۔ اس سے قومی سطح پر کنفیوزن نہیں ہوگا اور اپوزیشن بی جے پی کے مقابلے میں ایک طاقتور متبادل کھڑا کرسکے۔ یہی فارمولہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مختلف صوبوں میں اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس بابت وہ ریاستیں جہاں پر کانگریس پارٹی کا مقابلہ دیگر اتحادیوں سے ہے کچھ مشکلات ضرور پیش آسکتی ہیں جیسے کیرلہ میں کمیونسٹ پارٹیوں اور کانگریس کا براہ راست مقابلہ ہے، جبکہ کچھ ایسی بھی خبریں آرہی ہیں کہ مغربی بنگا ل میں کمیونسٹ پارٹیاں اور ترنمول کانگریس و کانگریس پارٹی بی جے پی کے خلاف متحد ہو کر الیکشن لڑیں گی۔ یہ صورتحال غیر معمولی ہوگی۔ خاص طور پر مغربی بنگال جیسی حساس ریاست میں یہاں دو ووٹ بینک کا ملنا سماجی ماہرین کے اس مقولے کی تائید کرتا ہے جس میں انہوںنے سیاست کو دی آرٹ آف امپوسیبیلیٹی قرار دیا ہے۔ اس بابت ابھی صورتحال واضح نہیں ہے مگر ابتدائی سطح پر جو اشارے سامنے آرہے ہیں وہ اس بات کی دلیل ہے کہ کانگریس پارٹی نے پانچ ریاستوں میں شکست کھا کر کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا ہے، مگر لوک سبھا انتخابات زیادہ دور نہیں ہے۔ اپوزیشن کو ایک متحد پلیٹ فارم تیار کرنا ہوگا اور جلد از جلد امیدواروں کے نام طے کرکے عوام تک پہنچانا ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS