ایم اے کنول جعفری
عدالت عظمیٰ کے حکم پر بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا کام مکمل ہونے کے بعد کاشی کی گیان واپی مسجدو مندر کا تنازع ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے متھرا کی شاہی عیدگاہ کا اے ایس آئی سروے کرانے کا فرمان جاری کردیا۔ شاہی عیدگاہ و شری کرشن جنم بھومی تنازع کو لے کرالٰہ آباد ہائی کورٹ میں داخل عرائض پر عدالت نے 14دسمبر 2023کے فیصلے میں شاہی عیدگاہ اراضی کا اے ایس آئی سروے کرانے کی منظوری دی۔ عدالت عظمیٰ نے اس پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے اگلی سماعت کی تاریخ9جنوری2024 مقرر کی ہے۔ جسٹس مینک کمار جین نے 16نومبر کو متعلقہ فریقوں کو سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ سروے ایڈووکیٹ کمشنر کی نگرانی میںہوگا۔ شری کرشن وراجمان کی جانب سے ہندوفریق کی عرضی داخل کی گئی تھی۔ جسٹس مینک کمار جین کی سنگل بنچ نے گیان واپی تنازع کے خطوط پر متھرا کے متنازع احاطے کے سروے کا حکم دیا ہے۔ہائی کورٹ18دسمبر کو سماعت کے دوران سروے کا طریقہ کار،وکلاء کی تعدادو تعیناتی، سروے شروع ہونے کی تاریخ اور کورٹ کمشنرکے ذریعہ کارروائی مکمل کرنے کی مدت جیسے اہم نکات کا فیصلہ ہونا تھا، جو اب 11جنوری 2024تک محفوظ کرلیا گیا ہے۔ عرضی لارڈ شری کرشن وراجمان اور دیگر 7 ایڈووکیٹ ہری شنکر جین، وشنو شنکر جین، پربھاش پانڈے اور دیوکی نندن پانڈے نے دائر کی تھی۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ بھگوان شری کرشن کی جائے پیدائش عیدگاہ کے نیچے ہے۔ وہاں کئی دیگر نشانیاں بھی ہیں،جن سے واضح ہوتا ہے کہ مسجد کی جگہ ہندو مندر ہے۔
الٰہ آبادہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف متھرا شاہی عیدگاہ ٹرسٹ کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کرتے ہوئے مسلم فریق کے وکیل حذیفہ احمدی نے جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی بنچ کے سامنے کہا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے متھرا میں شری کرشن جنم بھومی شاہی عیدگاہ کے سروے کے لیے کورٹ کمشنر کی تقرری کا حکم دیا ہے۔اگرسپریم کورٹ شاہی عیدگاہ ٹرسٹ اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کی عرضیوں پر سماعت نہیں کرتی،تو الٰہ آبادہائی کورٹ اس کی سماعت جاری رکھے گی۔ اس پرعدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ سے کوئی مسئلہ ہے تو آپ موسم سرما کی چھٹیوں میں بھی سپریم کورٹ آسکتے ہیں۔ ہندوفریق کے وکیل وشنو شنکر جین کے مطابق درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسجد میں کنول کی شکل کے ستون پر ہندوؤں کے مذہبی نشان اور نقش و نگارموجود ہیں، جو ہندو منادر کی پہچان اور شیش ناگ کی نقل ہیں۔ماناجاتا ہے کہ بھگوان شیو کی پیدائش کی رات شیش ناگ نے بھگوان کرشن کی حفاظت کی تھی۔ درخواست میں مقررہ مدت میں سروے کی رپورٹ پیش کرنے والا کمیشن تشکیل دینے، تمام کارروائی کی فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ26 مئی2023 کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اروند کمار مشرا کی سنگل بنچ نے متھرا کی ضلع عدالت میں زیرالتوا شاہی عیدگاہ و شری کرشن جنم بھومی تنازع سے متعلق تمام 18 عرضیوں کو سماعت کے لیے اپنے پاس منتقل کر لیا تھا۔شاہی مسجد 17ویں صدی میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے بنوائی تھی۔مسلم فریق 1991 کے پیلیسیس آف ورشپ کا حوالہ دیتے ہوئے ان عرضیوں کو غلط بتا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے عیدگاہ کمیٹی کی جانب سے مسلم فریق کی مسجد میں سروے پر پابندی لگانے کی عرضی میںمداخلت سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے میں ابھی کوئی حکم جاری نہیں کرے گی۔ ہائی کورٹ میں اہم مقدمہ بھگوان شری کرشن وراجمان کٹرا کیشو دیو کے نام سے رنجن اگنی ہوتری کی جانب سے دائرکیا گیا ہے۔دائر درخواستوں میں12اکتوبر1968کو ہوئے معاہدے کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔ساتھ ہی معاہدے کے تحت شاہی عیدگاہ کو دی گئی زمین بھگوان شری کرشن کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں درخواست گزاروں کی جانب سے مسجد کی تعمیر کوغیرقانونی طریقے سے بنانے کا الزام لگاتے ہوئے مسجد کو ہٹانے کی مانگ بھی کی گئی ہے۔ درخواست میں شاہی عیدگاہ، یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ، شری کرشن جنم بھومی سیوا سنگھ اور شری کرشن جنم بھومی سنگھ کو فریق بنایا گیا ہے۔دعویٰ کیا گیا ہے کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب نے شری کرشن کی جائے پیدائش پر بنے قدیم کیشو ناتھ مندر کو تباہ کرکے 1969-70 میں شاہی عیدگاہ کی تعمیر کی تھی۔ 1935میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بنارس کے راجہ کشن داس کو13.37ایکڑ زمین الاٹ کی تھی،جسے1951میں شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ نے حاصل کرلیا تھا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے متھرا کی شاہی عیدگاہ پر الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو افسوسناک اور خطرناک نتائج کا حامل بتایا۔ بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف1991کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی ہے،بلکہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان1968میں ہوئے باہمی معاہدے کے بھی حق میں نہیں ہے۔ شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عیدگاہ ٹرسٹ کے درمیان ہوئے معاہدے میں13.37ایکڑ زمین میں سے 10.39ایکڑ زمین شری کرشن جنم بھومی اور2.5ایکڑ زمین مسجد کے حوالے کرتے ہوئے تنازع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا گیا تھا۔1991میں نر سمہا راؤ کی مرکزی حکومت کے ذریعہ منظور کیے گئے قانون میں کہا گیا ہے کہ 15اگست 1947کو ہندوستان میں جو مذہبی مقامات جس شکل میں تھے،وہ اُسی شکل میں باقی رہیں گے۔اس قانون کے سیکشن(3) میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص کسی مذہبی فرقے یا اس کے کسی حصے کی عبادت گاہ کو اس مذہبی فرقے کے مختلف طبقے یاکسی مختلف مذہبی فرقے یا اس کے کسی حصے کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کرے گا۔صرف اجودھیا کے بابری مسجد اور رام مندر تنازع کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ اُمید کی جارہی تھی کہ مستقبل میں اس طرح کے مذہبی تنازعات پیدا نہیں کیے جائیں گے،لیکن اَمن و آشتی اور قومی یکجہتی سے بیر رکھنے والے اور ہندو و مسلمانوں کے درمیان منافرت پیدا کرکے سیاسی مفادات کی تکمیل کرنے میں لگے عناصرکو شاید یہ منظور نہیںہے۔ غور طلب ہے کہ ر ام مندر تحریک میں ’یہ تو ایک جھانکی ہے؍کاشی متھرا باقی ہے‘، کا نعرہ کافی زورشور سے اُٹھایا گیا تھا۔اَب اُسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ قانون اور معاہدے پر عمل پیرا ہونے کے بجائے ہندو فریق نے پہلے گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر معاملے کو نئے سرے سے تازہ کرتے ہوئے عدالت میں پہنچاکر دم لیا۔ابھی عدالت کے ذریعہ یہ معاملہ اپنے انجام تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ اور شری کرشن جنم بھومی کو بھی تنازع کی شکل میں ہائی کورٹ تک پہنچ دیا گیا۔ فرض کیجیے اگر سینے پر پتھر رکھ کر بابری مسجد کی طرح گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ سے دستبردار ہو بھی لیا جائے تو کیا گارنٹی ہے کہ مستقبل میں چوتھی مسجد کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا،جبکہ آگرہ کی جامع مسجد کی بھی آواز اُٹھنے لگی ہے۔آخر اس تنازع کو انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری کون لے گا؟ وہ تنظیمیںجو1991کے قانون اور1968کے معاہدے سے پیچھے ہٹ گئیں ! یا وہ سیاسی جماعتیں جن کا محورومقصد ہی مذہبی تنازعات کے پیچھے سیاسی مفاد ہے!!کل کیا ہونے والا ہے، اس بابت توکچھ نہیں کہا جا سکتا،لیکن یہ طے ہے کہ جب تک سیاست میں مذہب کی بیساکھیوں کا استعمال ہوتا رہے گا،تب تک مذہبی جنون کی آگ بھڑکانے کی مہم جاری رہے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]