جنگی جنون میں اسرائیل کے وزیراعظم اپنا آپا کھوبیٹھے ہیں ، ان کو جب اپنے توپوں کے دہانے کھولنے ہوتے ہیں تو وہ نہ ’دوست‘ اور نہ ’دشمن‘ کی تمیز برقرار رکھ پاتے ہیں۔یہی جنون ان کو دنیا کا سب سے بڑا سفاک انسان بناچکاہے۔چار روز قبل حماس کے ذریعہ یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کو نیتن یاہو کی فوج نے اس سفاکی کے ساتھ بھون ڈالا، جس بربریت کے ساتھ وہ فلسطینی بچوں ،عورتوں اور بے گناہ شہریوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ مگر اب اسرائیل کے وزیراعظم کی بے اعتدالیاں اور بربریت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ خود اسرائیل کے شہریوں نے بھی صدائے احتجاج بلند کرنی شروع کردی ہے۔جب سے نیتن یاہو اقتدار میں آئے ہیں وہ اپنے پرانے پاپ دھونے اور اپنے آپ کو اقتدار میں برقرار رکھنے کے لئے بد سے بد تر ہتھکنڈے اور حربے استعمال کررہے ہیں۔نیتن یاہو کے اور ان کے خاندان کے خلاف کرپشن کے بدترین الزامات ہیں ،کم از کم تین سے قابل سزا مقدمات میں ان کی سماعت ہورہی ہے۔مگر وہ اس پھندے سے نکلنے کے لئے اسرائیل کے نظام حکومت اور بنیادی قوانین میں ہی تبدیلی کرنے پر آمادہ ہیں۔ان کی بیوی پر الزام ہے کہ اس نے اپنے شوہر کی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے غیر ملکی شہریوں سے تحائف قبول کئے ، ان کے بیٹے بھی اس طرح کے ان الزامات سے بری نہیں ہیں،اسرائیل کا قانون کسی بھی متقدر،صدر،وزیراعظم ، وزیر یا اعلیٰ ترین افسر کو کرپشن اور بے اعتدالیوں سے چھوٹ نہیں دیتا۔اسرائیل کا یہی نظام انصاف کئی حلقوں میں اس کو معتبر بناتاہے، مگر نیتن یاہو جو تقریباً13ماہ قبل کئی پارٹیوں کے اتحاد کے وزیراعظم کے طور پر اقتدار میں ہیں ، وہ اس قابل فخر نظام اور قوانین میں تبدیل کرکے نظام انصاف کو ہی بدلنے پر آمادہ ہیں۔ وہ ایسے افراد کو اعلیٰ ترین عدالتی اور انتظامی عہدوں پر فائز کرنا چاہتے ہیں جو ان کے تئیں اور ان کی آئیڈیا لوجی کے لئے فائدے مند ہوں۔ اسرائیل کے عوام ان غیر جمہوری ترمیمات کے حق میں نہیں ہیں اور ہرہفتے کے آخری کے دوایام میں اسرائیل میں شدید اور بڑے پیمانے پرلگاتاراحتجاج ہورہے ہیں۔گزشتہ دوروز میں ان احتجاج میں اور شدت آئی ہے ۔حماس سے لڑتے لڑتے نیتن یاہو کی فوج نے اپنے ہی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ اس حرکت پر اسرائیل میں شدید ناراضگی ہے۔گزشتہ روز ان احتجاجوں کے درمیان وہ افراد بھی شامل ہوگئے جن کے اہل خانہ اسرائیلی فوج کی اس کارروائی میں ہلا ک ہوئے تھے، جن کے خاندان کے لوگ ابھی بھی حماس کے چنگل میں ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب اسرائیل کی فوج اور دفاعی فوجی دستوں کی کارروائی میں خود اسرائیلیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔7اکتوبر کو جو دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا اس میں بھی اسرائیلی فوجیوں نے آندھا دھند فائرنگ کرکے 300سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیاتھا۔ اس بات کا اعتراف اسرائیلی فوجیوں نے بہت بعد میں کیاتھا۔ 7اکتوبر کی حرکت میں جس میں تقریباً1400افراد ہلاک ہوئے تھے، یہ افراد بھی شامل ہیں جس کا ’الزام‘دہشت گردتنظیم حماس کے سرمنڈھا جاتاہے اور اسی کا انتقام لینے کے لئے اسرائیل کی فوج امریکہ کی فوجی حمایت ناٹو ممالک کے آلاتی حربی سب معصوم فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں ۔اسرائیل سفید فاسفورس کا استعمال مریضوں، بچوں اور شہریوں پر کررہاہے اور اسرائیل عالمی برادری کی آنکھوں کے سامنے ہر طریقے سے وہ دہشت گردانہ اقدام کررہاہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ دراصل 7کتوبر کو حملہ اسرائیل کی فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی اور خود نیتن یاہو کی قیادت والی حکومت کی نااہلی کا نتیجہ تھا۔اسی نااہلی کا داغ دھونے کے لئے اسرائیل معصوم فلسطینیوں کا خون بہارہا ہے اور اس خون سے اپنے دامن پر لگے داغ مٹانے کی کوشش کررہاہے۔اسرائیل میں حالات اس قدر خراب ہیں کہ اس کی پردہ پوشی نہ صرف یہ کہ اسرائیلی میڈیا کررہاہے بلکہ عالمی میڈیا بھی اس سازش میں ملوث ہے۔مگر اسرائیل کی عوام جو اس کرب کو جھیل رہی ہے، شاید اب نیتن یاہو کی نااہلی کو زیادہ دیرتک برداشت کرپائے۔
گزشتہ تین چار دنوں میں اسرائیل میں جو مظاہرے ہوئے ہیں ان میں کہاگیاہے کہ نیتن یاہو سرکار کا فوجی آپریشن یرغمالیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہاہے اور یہ اندیشہ بالکل درست ثابت ہورہاہے۔یہ ناراضگی اسرائیلی فوج کے خلاف تھی ،مگر اب سرکار کے خلاف ہوگئی ہے، جس کی فوج نے یہ وضاحت کی تھی کہ یہ کیوں اسرائیل یرغمالیوں کو سفید کپڑے پہنانے گئے تھے۔اس مظاہرے میں وہ خاتون بین این ایمی بھی شامل تھیں جن کو حماس نے چھوڑدیا تھا ،مگر ان کے شوہر اوحد بین ایمی ابھی بھی قید میں ہیں۔جن یرغمالیوں کو اسرائیلی فوجی نے مارا ہے ان کے نام یوتام ہیم ،سمیر تلالکااورالان سمرزہیں۔یہی وجہ ہے کہ خانگی دبائو میں نیتن یاہو مغربی ایشیا کے دولت مند اور بااثر ملک قطر کو دوبارہ ثالثی کے لئے منانے کی کوشش کررہے ہیں ، یہی وہی نیتن یاہو ہے جو تقریباً 10روز قبل قطر کی ثالثی کی مہم کورد کرچکے ہیں،جس کے تحت فلسطین میں بمباری روک دی گئی تھی۔دوروزقبل تین افراد کی ہلاکت کے بعد اسرائیل کے عوام میں غصہ کو دبانے کے لئے نیتن یاہو نے انٹیلی جینس کے چیف کو ملاقات کے لئے بھیجا ہے۔ نیتن یاہو اس سے پہلے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ یرغمالیوں کوآزاد کرانے کے لئے کسی جنگ بندی کی ضرورت نہیں ہے ، یہی نہیں انہوں نے قطر کے ساتھ ترکی کو بھی دھمکی دے ڈالی تھی کہ وہ حماس کو حمایت اور اپنے ملک میں اس کی سرگرمیاں بند کرائے۔مگر بدلتے حالات میں نیتن یاہو کو اپنے سخت موقف میں تبدیلی کرنی پڑرہی ہے۔بدنام زمانہ موساد کا سربراہ ڈیوڈ برنیا نے قطر کے وزیراعظم احمد بن عبد الرحمن الثانی سے ملاقات کی ہے اور قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے پر زور دیاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب حماس نے اس سلسلے میں کوئی بھی بات چیت کرنے سے انکار کردیاہے۔اس نے کہاہے کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے کسی بھی مصالحتی عمل میں شامل ہو۔اس کا اصرار ہے کہ پہلے مکمل طور پر فلسطینیوں پر ہورہی بمباری بند ہو۔ اس کے بعد ہی کسی تجویز پر غور کیاجائے گا۔جبکہ غزہ میں حالات بد سے بدترہوتے جارہے ہیں ، آج ہی جبلیہ میںاسرائیلی بمباری میں کم از کم 90افراد کی موت کی اطلاع ہے۔اسرائیل غزہ میں کھانے پینے کی اشیا ، ایندھن کی تقسیم کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔اسرائیل نہ صرف فلسطینی رضاکارتنظیموں اوران کے رضا کاروں کو نشانہ بنارہاہے بلکہ صحافیوں اور اقوام متحدہ کے عملے کو بھی چن چن کر نشانہ بنارہاہے۔پوری دنیا خاص طور پر مغربی ممالک جو اعلیٰ جمہوری اقدار کی دہائی دیتے ہیں، اسرائیل کی ان حرکتوں پر خاموش ہیں۔یہی خاموشی اسرائیل کی حوصلہ افزائی کررہی ہے ، مگر اب لگتا ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم اپنے ہی بچھائے ہوئے جال پر پھنس گئے ہیں۔ اسرائیل کے اندر ان کے خلاف شدید ناراضگی ہے۔عالمی برادری بشمول امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور یہاں تک کہ جرمنی بھی اسرائیل کی نکتہ چینی کررہاہے۔ اس کے باوجود کوئی اثر اسرائیل کی صہیونی حکومت پر نہیں پڑرہا ہے۔ شاید اب ایسا لگ رہاہے کہ حماس ہی اس کا اعلاج کرے گا۔nmt
الجھا ہے پائوں یار کاالفِ دراز میں
لوآپ اپنے دام میں صیاد آگیا
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS