عبدالعزیز
ہماری دنیا دو سو سال سے نہ مسلمانوں کی دنیا ہے نہ ہندوئوں کی دنیا ہے۔ یہ مغرب کی دنیا ہے۔ اس کا آسمان مغرب کا ہے، اس کی زمین مغرب کی ہے۔ اس کے سورج، چاند اور ستارے مغرب کے ہیں۔ اس کی ہوا مغرب کی ہے۔ اس کی فضا مغرب کی ہے۔ اس کے خیر و شر مغرب کے ہیں۔ اب دنیا میں کہنے کو مغرب کی کوئی نو آبادی نہیں ہے، مگر اب بھی پوری دنیا مغرب ہی کی نو آبادی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر مغرب کے اس ہمہ گیر، ہمہ جہتی اور ہولناک غلبے کے اسباب کیا ہیں؟
جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے تو مسلم دنیا پر مغرب کے غلبے کی ایک بہت بڑی وجہ اقبال کے اس شعر میں موجود ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
مسلمان کہنے کو خدا کو مانتے ہیں۔ وہ رسول اکرمؐ سے محبت کرتے ہیں۔ وہ قرآن کو سینے سے لگاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی زندگی نہ ’’خدا کامرکز‘‘ ہے، نہ ’’رسول ؐ کامرکز‘‘ ہے، نہ قرآن کامرکز ہے۔ وہ کہنے کو نماز میں خدا کے آگے سر جھکاتے ہیں مگر اصل میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اپنے نفس کی خواہشوں کو اپنا خدا بنالیا ہے۔ کروڑوں مسلمان ہیں جن کی زندگی ’’خداکا مرکز‘‘ اور ’’رسولؐ کا مرکز‘‘ ہونے کے بجائے ’’دولت کامرکز‘‘ اور ’’طاقت کامرکز‘‘ ہے۔ مسلمان کہنے کو ایک ارب 80 کروڑ ہیں، مگر ان کا اخلاقی اور علمی وزن ایک کروڑ مسلمانوں کے برابر بھی نہیں ہے۔ اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اقبال نے ایک صدی پہلے کہا تھا۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال کا یہ شکوہ غلط نہیں تھا۔ مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب تک مسلمانوں کی زندگی خدا کامرکز، رسولؐ کامرکز اور کتاب اللہ کامرکز تھی انہوں نے بہت تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ غزوہ بدر میں 313 مسلمانوں نے ایک ہزار کے لشکر کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ بعد کے زمانے میں بھی مسلمانوں کے کارناموں سے بھرے ہوئے ہیں۔ طارق بن زیاد اسپین فتح کرنے نکلے تو ان کے پاس صرف 17 ہزار فوجی تھے اور ان کے مقابل ایک لاکھ کا لشکر تھا، مگر مسلمانوں نے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی۔ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے آئے تو ان کے پاس صرف 18 ہزار فوجی تھی اور راجا داہر ایک لاکھ کا لشکر لیے کھڑا تھا ،مگر محمد بن قاسم کے 18 ہزار فوجیوں نے ایک لاکھ کے لشکر کو زیر کرلیا۔ 20 ویں صدی میں مٹھی بھر افغان مجاہدین نے وقت کی ایک سپر پاور سوویت یونین کو ایسی شکست سے دوچار کیا کہ سوویت یونین بھی ختم ہوگیا اور اس کا نظریہ سوشلزم بھی تحلیل ہوگیا۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر قبضہ کیا تو طالبان اس کے خلاف صف آرا ہوگئے اور 20 برس کا جہاد رنگ لایا۔ طالبان نے امریکہ ہی نہیں اس کے 48 اتحادیوں کو بھی شکست سے دوچار کیا۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم دنیا کے بادشاہ، جرنیل اور سیاسی حکمران امریکہ کو ایک ملک نہیں ایک خدا سمجھتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ آج اسرائیل غزہ میں انسانی تاریخ کا ایک بڑا ظلم کررہا ہے، مگر مسلم دنیا کے حکمران اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ اور یورپ کی مذمت تک کرنے کے لیے تیار نہیں۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت حق و باطل اور غلط اور صحیح کو نہیں دیکھتی وہ طاقت اور اس کے توازن کو دیکھتی ہے۔ رسول اکرمؐ سردار الانبیاء تھے، خاتم النّبیینؐ تھے، آپؐ کی سیرت طیبہ بے مثال تھی، مگر اس کے باوجود مکے کی 13 سالہ زندگی میں مکے کے اکثر لوگوں نے آپؐ پر ایمان لانے سے انکار کردیا، طاقت کے پرستاروں میں سے بہت سے لوگوں نے کہا کہ پہلے آپ کوئی معجزہ دکھائیے۔ رسول اکرمؐ نے انگلی کے اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کیا تو کچھ ہی لوگ ایمان لائے۔ اکثر نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے، لیکن جب رسول اکرمؐ نے مکہ فتح کرلیا اور سیاسی و معاشی طاقت حاصل کرلی تو دیکھتے ہی دیکھتے پورا عالم عرب مسلمان ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی اکثریت خیال یا Ideas پر ایمان نہیں لاتی، طاقت پر ایمان لاتی ہے۔ امام حسینؓ حق پر تھے، اہل کوفہ نے آپ کو خط لکھ کر خود کوفہ بلایا تھا، مگر امام حسینؓ جب کوفہ پہنچے تو اہل کوفہ یزید کی طاقت سے خوف زدہ ہوگئے اور انہوں نے امام حسینؓ کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ نتیجہ یہ کہ کربلا میں پورا خانوادئہ رسولؐ شہید کردیا گیا، لیکن یزید کے خلاف کوئی عوامی بغاوت نہ ہوئی۔ کوئی اس کی طاقت کو چیلنج کرنے کے لیے نہ نکلا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی اکثریت کے لیے دعویٰ جھوٹا ہوتا ہے اور قبضہ سچا ہوتا ہے۔ چنگیز خان ایک قوت قاہرہ بن کر ابھرا تو پورے عالم اسلام میں صرف جلال الدین خوارزم شاہ نے اس کی مزاحمت کی۔ جلال الدین نے خلیفہ بغداد کو چنگیز کی مزاحمت پر آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی، مگر خلیفہ چنگیز کی طاقت سے ڈر گیا، برصغیر میں اکبر اعظم نے دین الٰہی کے نام سے ایک پورا دین ایجاد کرلیا، مگر اس کے خلاف کوئی عوامی مزاحمت نہ ہوئی۔ آج مسلم دنیا کے بڑے بڑے ملکوں پر ان ملکوں کے جرنیلوں اور افواج کا غلبہ ہے اور اس غلبے کو کوئی چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عملی مزاحمت تو دور کی بات کوئی جرنیلوں اور مسلم دنیا کی افواج پر تنقید تک کے لیے آمادہ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب کی طاقت بے مثال ہے۔ اس کے پاس سیاسی طاقت ہے۔ عسکری طاقت ہے۔ معاشی طاقت ہے۔ ابلاغی طاقت ہے۔اس طاقت سے مسلمانوں سمیت پوری دنیا خوف زدہ ہے۔ بلاشبہ قوم پرست چین امریکہ کی مزاحمت کررہا ہے مگر وہ بھی امریکہ کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا۔ امریکہ اور یورپ نے یوکرین میں روس پر تصادم مسلط کیا ہے اور روس اس کی بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔ امریکہ اور یورپ تو بڑی چیز ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر ایک فرد اور ایک تنظیم کی طاقت اتنی ہے تو مغرب کی طاقت کا دنیا پر کیا رعب اور دبدبہ ہوگا۔
بدقسمتی سے مغرب کی مادی ترقی پوری دنیا کے لیے ایک نمونہ ہے۔ اس مادی ترقی کی وجہ سے پوری دنیا مغرب کو حیرت اور ہیبت سے دیکھتی ہے۔ امریکہ نے جاپان پر ایک نہیں دو ایٹم بم گرائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ جاپانیوں کو امریکا کی ہر چیز سے نفرت ہوجاتی ،مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس جاپان نے امریکہ اور یورپ کی ترقی کے ماڈل کو اپنے لیے نمونہ عمل بنالیا۔ اس نے مغرب کا سیاسی ماڈل اختیار کرلیا۔ اس نے مغرب کے معاشی اور سیاسی نظام کو کاپی کیا۔ چین کمیونسٹ ملک تھا مگر اس نے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے لیے راہ ہدایت سمجھا۔ بلاشبہ چین میں مغرب کی جمہوریت نہیں ہے، مگر جمہوریت کے سوا چین کی ہر چیز مغرب کی نقل ہے۔ اس کا صنعتی اور تجارتی ماڈل مغرب کی عطا ہے۔ چین اپنے شہروں کو امریکہ اور یورپ کے شہروں کی طرح بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
دنیا میں مغرب کے غلبے کی ایک وجہ اس کا سیاسی نظام ہے۔ اقبال نے مغرب کی جمہوریت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا۔
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال کہہ رہے تھے مغربی جمہوریت معیاری یا Qualitative نہیں ’’مقداری‘‘ یا Quantitative ہے۔ اس نظام میں امام غزالی اور مولانا مودودی کا بھی ایک ووٹ ہے اور میرا اور آپ کا بھی ایک ووٹ ہے۔ جو نظام ’’معیار‘‘ کو اس حد تک نظر انداز کرتا ہو وہ کتنا فضول ہوگا، مگر مغرب نے جمہوریت کو پوری دنیا کا عشق بنادیا ہے۔ چنانچہ اب مسئلہ یہ ہے کہ جہاں جمہوریت کا غلبہ ہے وہاں مغرب اور اس کے تناظر کا غلبہ ہے چونکہ جمہوریت عالمگیر ہے اس لیے مغرب کا سیاسی غلبہ بھی عالمگیر ہے۔
مسلمان جب سیکڑوں سال تک دنیا کی واحد سپر پاور تھے تو صرف ان کی سیاسی، عسکری اور معاشی طاقت ہی ان کے عالمگیر غلبے کا سبب نہیں تھی بلکہ مسلمانوں کی ’’علمیت‘‘ بھی اس کا سبب تھی۔ مسلمانوں نے بے مثال علم تفسیر، بے مثال علم حدیث اور بے مثال علم فقہ ہی تخلیق نہیں کیا تھا، انہوں نے نیا علم تاریخ بھی پیدا کیا تھا، انہوں نے داستان کی شاندار روایت خلق کی تھی۔ انہوں نے لازوال شاعری تخلیق کی، انہوں نے اپنا فلسفہ پیدا کیا تھا، اپنی حیاتیات وضع کی تھی، اپنا علم طب خلق کیا تھا، اپنی طبیعات کو وجود بخشا تھا، اپنی ریاضی اور اپنی منطق پیدا کی تھی۔ چنانچہ یہ علوم و فنون بھی دنیا میں مسلمانوں کے غلبے کا سبب تھے۔ آج مغرب کا عالمی غلبہ صرف اس کی سیاسی، عسکری اور معاشی طاقت کا رہین منت نہیں بلکہ مغرب کے علوم و فنون بھی اس کا سبب ہیں۔ آج مسلمانوں کے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں مغرب کے علوم و فنون پڑھائے جارہے ہیں، ہمارے ذہنوں پر مغربی مفکرین کے افکار کا غلبہ ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا میں کہیں بڑی تخلیقی فکر موجود نہیں۔ ہمارے پاس نہ کوئی بڑا شاعر ہے۔ نہ بڑا ادیب ہے۔ نہ بڑا فلسفی ہے، نہ بڑا سائنس دان ہے، نہ کوئی بڑا موجد ہے، یہاں تک کہ اب ہمارے پاس کوئی بڑا عالم دین بھی نہیں ہے۔ پوری مسلم دنیا بونے اور بالشتیے پیدا کرنے میں لگی ہوئی ہے، اس صورت حال میں مغرب عالم اسلام پر غالب نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔nmt