جمہوریت پر حکومت کا شب خون

0

ثابت شدہ زمینی حقیقت ایک چیز ہوتی ہے اور تاثرجسے انگریزی میں Perceptionکہاجاتا ہے بالکل الگ چیز ہے ، ان دونوں کے مابین بعد المشرقین ہے۔تاثر یہ ہے کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جہاں آئینی اداروں کو تقدس کا درجہ حاصل ہے اور وہ اپنے مفوضہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے شاہ و گدا سب کے ساتھ مساوی سلوک کرتے ہیں۔ لیکن ثابت شدہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت ، دھیرے دھیرے آمریت میں بدل رہی ہے، آئینی اداروں کو حکومت کا وفادار چاکر بنایا جارہا ہے اور یہ آئینی ادارے حکومت کے اشارے پر شہ و مات کا کھیل کھیلنے لگے ہیں۔ آربی آئی، سی وی سی ، سی آئی سی، پی ایس سی، این ایچ آر سی ، سی بی آئی، ای ڈی ، این آئی اے اور اس طرح کے دوسرے اداروں کی حالیہ کارروائیاں اس کی مثالیں ہیں۔
اسی طرح حقیقت کچھ اور سہی مگر تاثر یہی ہے کہ ہندوستان میں انتخابات صاف ، شفاف ، ہر طرح کی بدعنوانی سے پاک ہوتے ہیں کیوں کہ یہاں انتخاب کرانے کیلئے ایک آزاد اختیارات رکھنے والا الیکشن کمیشن کام کرتا ہے لیکن اب یہ عمومی ’تاثر‘ بھی حکومت کو گوارا نہیں ہے۔وہ چاہتی ہے کہ ’الیکشن کمیشن آف انڈیا‘، ’الیکشن کمیشن آف گورنمنٹ آف انڈیا‘ میں بدل جائے۔اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اس نے الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کمشنروں کی تقرری کے عمل میں تبدیلی کا بل حزب اختلاف اور تمام عوامی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود راجیہ سبھا سے پاس کروالیا۔
اب اس نئی تبدیلی کے بعد کمیشن میںتقرری کے اختیار کا توازن بگڑچکا ہے۔تبدیلی کے مطابق الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کمشنرز کی تقرری کیلئے سلیکشن کمیٹی وزیر اعظم، قائد حزب اختلاف اور ایک کابینہ وزیر پر مشتمل ہوگی۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی اس سلیکشن کے رکن تھے جس کی وجہ سے غیرجانبداری برقرار تھی مگر نئی تبدیلی نے منصف اعظم کو اس سلیکشن کمیٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا ہے۔ اب اس کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہوگی کیونکہ حکومت خود اس سلیکشن کمیٹی میں وزیر کو نامزد کرے گی۔ اس تبدیلی سے تقرری کا اختیاراب عملاًحکومت کے ہاتھوں میں ہے وہ جسے چاہے سی ای سی کے عہدہ پر بٹھائے اور ایک آجر کی طرح جو چاہے اس سے کروالے۔ راجیہ سبھا میں منظور ہونے والے بل کو چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز(تقرری،ملازمت کے شرائط اور دفتر کی مدت) بل 2023 کا نام دیا گیا۔ اسے پہلے 10 اگست کو متعارف کرایا گیا تھا لیکن کچھ اعتراضات کے بعد حکومت نے اسے دوبارہ متعارف کرایا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس میںمثبت تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ترمیم شدہ بل میں ایک شق یہ بھی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمشنر جو بھی کارروائی کریں گے یا حکم دیں گے، انہیں مکمل تحفظ حاصل ہوگا، یعنی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔اس ترمیم شدہ بل میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی عدالت کسی ایسے شخص کے خلاف جو چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمشنر رہاہویا ہے یا تھا، اس کا قول و فعل کسی بھی فوجداری یا دیوانی کارروائی کے دائرہ میں نہیں آئے گا۔ یعنی عدالت اس سلسلے میں کسی بھی درخواست کی سماعت کے دوران سی ای سی یا کسی کمشنر کے خلاف احکامات جاری نہیں کر سکے گی۔
کسی بھی آزاد ملک میں جمہوری طرز حکمرانی قائم کرنے کیلئے حکومت سازی کا عمل انتہائی اہم اور ہرطرح کی بدعنوانی اور بددیانتی سے پاک ہونا چاہیے۔چونکہ حکومت عوامی ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے، اس لیے اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ لوگ آزادانہ اور پرامن ماحول میں بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں۔ ورنہ رائے عامہ کی درست عکاسی ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا جس ادارہ پر انتخاب کے انعقاد ، نئی مقننہ اور حکومت کی تشکیل کے انتظامات کی ذمہ داری ہے، اسے کسی بھی صورت میں سیاسی طور پر متعصب نہیں ہوناچاہیے اور نہ کسی سیاسی جماعت سے کوئی لگاؤ یا ترجیح ہونی چاہیے۔ہندوستان کے آئین میںبھی کمیشن کا کردار بہت اہم ہے، یہ جمہوری طرز حکمرانی کاخشت اول ہے۔اگلی حکومت کیسی ہوگی اس کا انحصار کمیشن کے کردار پر ہوتاہے۔ کمیشن اگر نڈر، دیانتدار، شفاف ، غیر جانبداراور آزادہے تو ہی جمہوریت کا محافظ بن کر انتخابات میں رائے عامہ کی درست عکاسی کا سامان کرسکتا ہے۔
لیکن اب نئے قانون کے مطابق حکومت کے ناپسندیدہ یا غیرجانبدارانہ نظریہ رکھنے والے کو بھی کمشنر کے عہدے پر بیٹھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ قانون میں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ترمیم کی گئی ہے کہ ان عہدوں پر صرف حکومت کے وفادار اور پسندیدہ افراد کو ہی تعینات کیا جا سکے۔ ایسے میں انتخابات میں دیانت، شفافیت اور غیر جانبداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو اگلا لوک سبھا انتخاب موجودہ حکومت کی پسند کے لوگ اس کی پسند کے مطابق ہی کرائیں گے۔
نئے تبدیل شدہ قانون پر تاثر کچھ ہو مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت کایہ قانون ملک میں جمہوریت کی تدفین اور ایک پارٹی کی آمریت کا آغاز ہے۔اس قانون سے انتخابات میں حکمراں جماعت کی طاقت مطلق العنان شکل اختیار کرے گی اورپہلے سے ہی پنجہ آزمائی کی سکت کھوتا جارہا حزب اختلاف نام لیوا اور پانی دیوا کو بھی ترسے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS