نئی دہلی (یو این آئی): ملک میں بڑھتی نفرت اور اشتعال انگیزی کے درمیان جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے ملک میں بھائی چارہ اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اخوت و محبت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس ملک کو جنت بنانا ہے تو یہاں کے باشندوں کو اپنے آباو اجداد کے بھائی چارہ اور میل ملاپ کے راستے پر چلنا ہوگا۔ مولانا مدنی نے یہ اپیل آج فیروزپور جھرکہ میں ہندو مسلم فساد زدگان کے درمیان پلاٹ اور مکان کیلئے امدادی چیک تقسیم کرتے ہوئے کی۔
انہوں نے ملک میں جاری نفرت انگیز ماحول کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہا کہ نفرت کی سیاست کا مقابلہ ملک میں بھائی چارہ کی فضا قائم کرکے اور صحیح راستتے پر چل کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ فساد میں خؤاہ ہندو ملوث ہوں یا مسلمان ہم دونوں کی مذمت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر رہنے کی اپیل کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس لئے جو لوگ مذہب کا استعمال نفرت اورتشدد برپا کرنے کے لئے کرتے ہیں انہیں اپنے مذہب کا سچا پیروکار نہیں کہا جاسکتا، اس حساس مسئلہ پر ارباب اقتدار کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سیاست داں اقتدار کی خاطر ملک اور عوام کے مسائل کی جگہ صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر نفرت کی سیاست کررہے ہیں جو ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت روز روشن کی عیاں ہے کہ نفرت کی سیاست آپ کو سکون سے رہنے نہیں دے گی اور نہ ہی پڑوس میں رہنے والوں کوچین سے بیٹھنے دے گی۔
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ آزادی کے بعد سے 75 سالوں میں تمام سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو معاشی، تعلیمی اور سیاسی طور پر کمزور کیا اور ہمیشہ ان کو خوفزدہ اور ڈرانے کی منصوبہ بند ی ہوتی رہی ہے، لیکن مسلمان اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔
انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے فیروزپور جھرکہ میوات میں آج ان فساد زدہ متاثرین کے لئے جن کے مکانوں کو میوات فساد کے بعد انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے بلڈوز کر دیا تھا کہ یہ محکمہ جنگلات کی زمین ہے، ان کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے باضابطہ طورپر زمین خرید لی ہے،حالانکہ وہ لوگ ایک زمانے سے ان پہاڑیوں کے دامن میں مکان بناکر رہ رہے تھے، جمعیۃعلماء ہند نے ان فسادمتاثرین میں سے ان 20 لوگوں کا انتخاب کیا جن کے پاس نہ کوئی زمین تھی اورنہ رہنے کا مکان، مکان بلڈوز ہونے کے بعد بھی یہ لوگ اسی جگہ پر پلاسٹک وغیرہ لگاکر رہ رہے تھے۔
واضح رہے کہ جمعیۃ علمائے ہند نے 22 سو گز زمین خرید کر رجسٹری کرائی اور ایک خاندان کو تقریبا 100 گزکا مکان اورپانی کی ٹنکی اورایک مسجد بناکر دینے کااپنا وعدہ پورا کیا، مسجد میں ایسے امام کا انتظام بھی کیا جائے گا جو ان کے بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دے سکیں گے۔ اس کی رجسٹری کے کاغذات متاثرین کو سونپے گئے جن میں تین ہندو خاندان بھی شامل ہیں۔
مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر ان میں فی کس بیس ہزارروپے کی شکل میں چالیس لاکھ روپے تقسیم کئے گئے تھے تاکہ وہ اپنا کاروبار دوبارہ شروع کرسکیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے عہدیداران اوررضاکار پہلے دن سے متاثرہ علاقوں میں متاثرین کو ہرطرح کی مددفراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں، گزشتہ 13 ستمبر کو فسادات کے بعد سے بے کارہوئے ان دوسوسے زائد افرادکو جو ریہیڑی، پٹری لگاکر روزی روٹی کمارہے تھے، نقد مالی امداد فراہم کی تھی، کیونکہ فسادمیں ان کاسارا اثاثہ تباہ ہوچکا تھا۔ اس وقت مولانا مدنی نے یہ اعلان کیا تھا کہ جلد ہی متاثرہ علاقوں میں بازآبادکاری کا کام بھی شروع کردیا جائے گا اورجن کے گھروں کو غیر قانونی قرار دیکر توڑ دیا گیا ہے جمعیۃ علماء ہند انہیں نئے گھر بناکر دے گی۔ مولانا مدنی نے آج میوات میں بے گھر ہوئے 20 خاندانوں کو زمین کی رجسٹری کے کاغذات سپرد کئے اور مکانات کی تعمیر کے لئے فی الحال فی کس ایک لاکھ روپے دئیے تاکہ متاثرین اپنی ضرورت کے مطابق مکان تعمیر کرالیں۔ انہوں نے متاثرہ علاقوں میں امدادی اورفلاحی کاموں کا جائزہ لیااورمتاثرین سے ملاقات بھی کی۔
اس موقع پر رابطہ عالم اسلامی کے رکن مولانا مدنی نے کہاکہ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انتہائی ضرورت مند لوگوں تک مدد پہنچاسکے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعیۃعلماء ہند روزاول سے امدادی اورفلاحی کاموں میں پیش پیش رہی ہے، یہ کام اس نے کبھی مذہب کی بنیاد پرنہیں کیا بلکہ انسانیت کی بنیادپر کیاہے اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے،قدرتی آفات ہویاسماجی مشکلات، ملی مسائل ہویاملکی معاملات ہر قدم پر جمعیۃ علماء ہند نے انسانیت کی بنیادپر اپنی خدمات انجام دی ہیں،زلزلہ اورسیلاب جیسے قدرتی آفات کا معاملہ یافرقہ ورانہ فسادکے متاثرین ہوں،بے گناہوں کی قانونی لڑائی ہویا آسام شہریت کا مسئلہ ہوسب کے لئے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اورسب کو بروقت مدد پہنچانا ان کی بازآبادکاری کرنا،ان کے زخموں پر مرہم رکھنا جمعیۃ نے اپنا فرض تصورکیا ہے، نوح میں بھی اس روایت کو برقرار رکھا جارہا ہے اور متاثرین کی بلالحاظ مذہب وملت مددکی جارہی ہے لیکن ایک بڑاسوال یہ ہے کہ اس فسادسے جو زخم لگاہے کیا وہ بھراجاسکے گا؟
انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ فساد ہوتے نہیں کرائے جاتے ہیں، اوراس کے پیچھے ان طاقتوں کا ہاتھ ہوتاہے جو نفرت کی بنیادپر ہندؤوں اورمسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کردینا چاہتی ہیں، یہ فسادکوئی نیا نہیں ہے، آزادی کے بعد سے ملک بھر میں ہزاروں کی تعدادمیں فسادات ہوچکے ہیں، مگر مایوس کن حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک فسادمیں بھی اصل خاطیوں کو ان کوکیفرکردارتک پہنچانے کی ایماندارانہ کوشش نہیں ہوئی، مولانا مدنی نے کہا کہ نوح میں جو کچھ ہوامنصوبہ بند تھا ورنہ ایک مذہبی یاترامیں نہ ہتھیارلہرائے جاتے اورنہ ہی اشتعال انگیزنعرے لگتے، بہت سے انصاف پسند افرادنے یہ سوال اٹھایاتھا اور پوچھا تھا کہ اگر وہ ایک مذہبی یاتراتھی تواس میں ہتھیارلے جانے اوراشتعال انگیزی کی ضرورت کیا تھی،مگرافسوس نہ تواس کی تفتیش ہوئی اورنہ ہی ایساکرنے والوں کی گرفتاری عمل میں آئی البتہ ایسے لوگوں کو بڑی تعدادمیں گرفتارکرلیا گیا جوبے گناہ تھے انہوں نے کہا کہ اگر فرقہ پرست یہ سمجھتے ہیں کہ فسادسے مسلمانوں کا نقصان ہوتاہے تووہ ناسمجھ ہیں، فسادسے کسی مخصوص قوم یا فردکا نہیں بلکہ ملک کانقصان ہوتاہے، دنیا کا ہر ہذہب انسانیت، رواداری اوراخوت کاپیغام دیتاہے۔
مزید پڑھیں: متھرا شاہی عید گاہ مسجد کے سروے پر روک لگانے سے سپریم کورٹ کا انکار
مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علمائے ہند رفاہی کاموں کے علاوہ تعلیم کے میدان میں بھی کام کررہی ہے اور دو کروڑ روپے تعلیمی وظائف بھی ضرورت مند طلباء میں تقسیم کر رہی ہے۔