عالمی دفاعی امور کے ماہرین میں قمر آغا کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر یا قارئین کا خیال کرتے ہوئے حالات پر تبصرہ نہیں کرتے، تاثرات کا اظہار حقائق کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ حماس کے حملے کے بعد ’دستاویز‘کے لیے گفتگو کرتے ہوئے قمر آغا نے غزہ جنگ کے وسعت اختیار کرلینے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ اس جنگ کے دو مہینے بعد بھی یہ اندیشہ ختم نہیں ہوا ہے۔ اس سے قمر آغا کی دور اندیشی کا اندازہ ہوتا ہے، اس لیے غزہ جنگ اور مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر ان سے گفتگو ضروری تھی تاکہ حالات کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔ قمر آغا کے مطابق، ’حماس کا حملہ واقعی دردناک تھا۔ بہت سے لوگوں کو انہوں نے مارا، یرغمال بنایا۔ اس کی سبھی نے مذمت کی۔ عرب لیڈروں نے بھی کی مگر اسرائیل نے جس طرح سے ردعمل کا اظہار کیا، اس کی مذمت بھی پوری دنیا کر رہی ہے سوائے امریکہ اور چند ملکوںکے جو مغربی یوروپ کے یا دیگر علاقوں کے ہیں۔ یہ جو پورا واقعہ ہوا، دونوں وجوہات سے، یعنی حماس کے حملہ کرنے اور اسرائیل کی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور بڑی تعداد میں مکانات کی مسماری سے، پورے عالم اسلام میں ہی نہیں، پوری دنیا میں امریکہ کے خلاف غم و غصے کی ایک لہر پھیل گئی۔ اس چیز نے سوئی ہوئی عرب قوم پرستی کو بیدار کر دیا۔ عرب قوم پرستی کی بیداری سے یہ ہوا کہ ان ممالک میں جہاں مظاہرے نہیں ہوا کرتے تھے، کیونکہ بیشتر مسلم ممالک میں جمہوریت تو ہے نہیں، وہاں بھی لوگ احتجاج و مظاہرے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ حکومتیں ڈر گئیں کہ مظاہرین کو روکنے پر مظاہروں کا رخ کہیں ان کی طرف نہ مڑ جائے اور دوسری عرب بہاریہ کے لیے حالات سازگار ہو جائیں، چنانچہ اردن نے، جس کے اسرائیل سے بے انتہا قریبی تعلقات ہیں اور اس خطے میں یہ دونوں ممالک امریکی مفادات کی حفاظت کرتے ہیں، الگ رخ اپنایا۔ اردنی شاہ امریکی صدر سے ملاقات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ سے جو بائیڈن کی ان سے ملاقات کا پروگرام کینسل کرنا پڑا۔ اردن کی یہ تبدیلی عرب دنیا کی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ عرب دنیا کی تبدیلی کی وجہ عرب قوم پرستی کا بیدار ہونا ہے۔ اس سے اسلامی طاقتوں کی شدت کم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔‘
قمر آغا کے مطابق، ’اس خطے میں جتنی بھی اسلامی طاقتیں تھیں، وہ ان حکومتوں کی مدد کرتی تھیں، امریکہ کے جن سے اچھے تعلقات تھے۔ یہ حکومتیں امریکی مفادات کا خیال رکھتی تھیں یعنی اسلامی طاقتوں سے بالواسطہ طور پر امریکہ اور مغربی ملکوںکو فائدہ ہوتا تھا مگر عرب قوم پرستی کی دو بنیادی باتیں ہیں- پہلی یہ کہ یہ تحریک بھائی چارے میں یقین رکھتی ہے۔ دوسری یہ کہ یہ امریکہ اور مغرب مخالف ہے۔ یہ اپنے لوگوں کو خودانحصار، خود کفیل بنانا چاہتی ہے۔ عرب قوم پرستی کے لیے حالات چند برس پہلے سے سازگار ہونے لگے تھے، کیونکہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے یہاں مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کیا تو اس کے بعد سے وہاں پر سعودی قوم پرستی بڑھی۔ یہ قوم پرستی سعودی عرب تک محدود تھی مگر سعودی عرب مسلم دنیا کا ایک اہم ملک ہے۔ وہاں جو کچھ ہوتا ہے، اس کے اثرات دیگر ممالک پر بھی پڑتے ہیں۔ ادھر عربوں میں ناامیدی پھیل گئی تھی کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے، اسے شکست دینا مشکل ہے، ابراہم ایکارڈس (Abraham Accords) کا دائرہ بڑھ رہا تھا مگر حماس کے حملوں نے حالات بدل ڈالے۔ عرب قوم پرستی بیدار ہو گئی۔‘
قمر آغا کے مطابق، ’مشرق وسطیٰ کے ممالک، خاص کر اردن اور مصر کے لیڈران اب تک اسرائیل کے خلاف بڑے بیانات تو دیتے رہے ہیں مگر اس کے مفاد کا خیال بھی کرتے رہے ہیں لیکن اس وقت جو حالات ہیں، ان میں اگر ان ملکوں کے حکمرانوں نے سابقہ روش پر چلنے کی کوشش کی تو ان کا اقتدار بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ پھر یہ کہ سعودی عرب میں اگر کوئی تبدیلی آئے گی تو مصر میں بھی آئے گی، کیونکہ دونوںملکوں کے مابین بڑے گہرے تعلقات ہیں، چنانچہ مصر بھی یہ سوچنے لگا ہے کہ امریکہ کے ساتھ رہنے میں زیادہ فائدہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصر کے حالات خراب ہیں-سیاسی طور پر بھی اور اقتصادی طور پر بھی۔ دوسری طرف اسرائیل کو بھی بہت نقصان ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ عربوں سے گھرا ہوا ہے مگر غزہ جنگ نے سوچ بدلی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جنگ کو دو مہینے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اسرائیل نے حماس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے مقصد کا اعلان کر رکھا ہے مگر اسے ختم نہیں کر پا رہا ہے جبکہ اس کا دائرۂ اثر 30-35 کلومیٹر کے علاقے تک ہی پھیلا ہوا ہے۔ غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کو روزانہ 20 سے 25 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے کافی فوجی بھی مارے گئے ہیں۔ مغربی کنارہ میں کچھ نئے گروپ کھڑے ہو گئے ہیں۔ادھر حزب اللہ اور حوثی رہ رہ کر حملے کر رہے ہیں۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ جنگ کو کھینچے رکھو،ختم نہ ہونے دو۔ کبھی حزب اللہ حملے کر دیتی ہے تو کبھی حوثی۔ کبھی شام سے محاذ کھل جاتا ہے۔ بحیرۂ احمر سے آبنائے باب المندب تک کا علاقہ ڈسٹرب ہے۔ امریکہ کو بھی تین طرف بحیرۂ روم، خلیج فارس اور بحیرۂ احمر پر توجہ دینی پڑ رہی ہے۔ اسرائیلی فوج کو ہمہ جہت توجہ مرکوز کرنی پڑ رہی ہے۔ وہ کہیں سے فوج ہٹانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیونکہ حزب اللہ، حوثی اور شام کی طرف سے مستقل حملے نہیں ہو رہے ہیں۔ کبھی یہ حملہ کر دیتا ہے تو کبھی وہ ۔ اس سے جنگ کا خرچ بڑھ رہا ہے۔ غزہ جنگ کی وجہ سے امریکہ اور یوروپ کے لوگوں میں، خاص کر نوجوانوں میں اسرائیل کے خلاف بڑا غصہ ہے۔ مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کوئی چھوٹے مظاہرے نہیں، بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لندن کے مظاہروں میں 10-10 لاکھ لوگ شامل ہوئے ہیں۔ یہی صورتحال دیگر بڑے شہروں میں بھی ہے۔ امریکہ اور یوروپ کے ہر بڑے شہر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ امریکہ کا معاملہ یہ ہے کہ اسے یوکرین کے ساتھ جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ اس میں اسے اورپیسے دینے ہیں۔ تقریباً 50-60 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ غزہ جنگ پر اسرائیل کا جو ہر دن کا خرچ ہو رہا ہے، وہ امریکہ اور یوروپی ممالک کو دینا پڑے گا۔ اسرائیل کا ماننا ہے کہ وہ ان کی جنگ لڑ رہا ہے، کیونکہ حماس ہو، حزب اللہ یا حوثی یا عراق میںشیعہ ملیشیا، سب امریکہ کے بھی خلاف ہیں، اس کے مفادات کے بھی۔ اسی لیے اسرائیل کا ماننا ہے کہ ان سے لڑائی لڑتے ہیں تو امریکیوں کا بھی فائدہ ہوگا، کیونکہ یہ ایران کے دائرۂ اثر میں ہیں اور ایران کے کہنے پر کام کرتے ہیں۔ یہ کمزور ہوں گے تو ایران بھی کمزور ہوگا ۔ ‘
عالمی امور کے ماہر قمر آغا کے مطابق، ’غزہ جنگ بہت پھیل گئی ہے اور ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں یہ ایران تک نہ پہنچ جائے۔ اسرائیل، ایران پر حملے کے بارے میں کہتا توضرور ہے مگر امریکہ فی الوقت یہ نہیں چاہتا کہ ایران جنگ میں شامل ہو۔ سعودی عرب اور خلیج فارس کے عرب ممالک بھی یہ نہیں چاہتے کہ اس جنگ میں ایران شامل ہو، کیونکہ اس کے منفی اثرات ان کی اقتصادیات پر پڑیں گے، اس لیے یہ لگتا ہے کہ غزہ جنگ کے دیرپا اثرات مرتب ہوںگے۔ اسرائیل کے لیے یہ جنگ دھچکا ہے۔ کئی لوگ مسئلۂ فلسطین کے دوریاستی حل کی بات کر رہے ہیں مگر اسرائیل نے ایسی حالت کر دی ہے کہ دو ریاستی حل کی بات نہ ہو۔ اس کے باوجود چاہے وہ پورے فلسطین پر ہی قبضہ کر لے، قبضہ رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ عالمی برادری اسے کبھی قبول نہیں کرے گی۔ مجھے نہیں لگتا کہ گریٹر اسرائیل بنانے کا ان کا خواب اب کبھی پورا ہوپائے گا، کیونکہ یوروپ کے کئی ممالک حالانکہ دل سے اسرائیل کے ساتھ ہیں مگر وہ اس لیے اس کے خلاف ہوگئے ہیں کہ ان کے عوام یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیںکہ غزہ میں جس طرح بچوں اور خواتین کو جانیں گنوانی پڑرہی ہیں، وہ صحیح ہے۔‘n
(نمائندہ ’روزنامہ راشٹریہ سہارا‘سے گفتگو پرمبنی)
غزہ جنگ کافی پھیل چکی ہے!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS