صبیح احمد
اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے ایک ’طویل جنگ‘اور ملک کے اعلیٰ حکام نے حماس کو ’زمین سے مٹانے‘ کی دھمکیوں کے ساتھ غزہ پٹی پر اپنی فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا اور تب سے ابھی تک اسرائیل کی فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ زمینی فوجی کارروائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ حالانکہ گزشتہ ہفتہ تقریباً ایک ہفتہ کی جنگ بندی بھی ہوئی اور اس سے لوگوں میں یہ امید بھی جاگی کہ شاید یہ مکمل جنگ بندی کا آغاز ہو، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اس مختصر وقفہ کے بعد پھر سے ’پوری تیاری کے ساتھ‘ غزہ پر اپنی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس بار اسرائیلی حکمرانوں اور حکام کی دھمکیاں محض گیدڑ بھبھکیاں نہیں ہیں بلکہ اپنے مقصد کو انجام تک پہنچانے کے لیے وہ اٹل ہیں۔ادھر حماس بھی اسرائیل کے تقریباً 2 مہینے کے مسلسل قہر کے باوجود ابھی تک شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور ثابت قدمی کے ساتھ میدان جنگ میں کھڑا رہ کر مقابلہ کر رہا ہے۔ مسلسل 16 سال اقتدار میں رہنے کے بعد حماس کی جڑیں غزہ پٹی میں کافی گہرائی سے جمی ہوئی ہیں۔ اب تو علاقائی ماہرین بھی اس فلسطینی گروپ کو مکمل طور پر ختم کرنے کی اسرائیل کی صلاحیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اسرائیل حماس کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے، تب بھی نتیجہ کے طور پر ایک ایسے حکومتی اور سیاسی خلا کے ساتھ ساتھ انسانی بحران پیدا ہو جائے گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب تک غزہ میں 18000 سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق مرنے والوں میں ساڑھے 3 ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔
آخر اس جنگ کے بعد غزہ پٹی کی صورتحال کیا ہوگی؟ یعنی اس کا مستقبل کیسا ہوگا؟ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ بالخصوص اسرائیلی رہنمائوں و حکام اور اسرائیل کی سب سے زیادہ پشت پناہی کرنے والے امریکہ کی جانب سے الگ الگ بیانات دیے جا رہے ہیں۔ جہاں امریکہ بظاہر اس بات کے لیے ’دبائو‘ ڈال رہا ہے کہ جنگ کے بعد اسرائیل کو غزہ پٹی پر قبضہ کر کے اسے اپنے زیر حکمرانی نہیں لینا چاہیے بلکہ مغربی کنارہ میں صدر محمود عباس کی قیادت میں برسراقتدار پی ایل او کے حوالے کر دینا چاہیے، وہیں اسرائیلی وزیراعظم غزہ پٹی کی باگ ڈور فلسطینی صدر کے حوالے کرنے کو قطعی تیار نہیں ہیں۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ پٹی اور اس کے 2.1 ملین باشندوں سے متعلق منصوبوں کے بارے میں ابھی تک کھل کر کچھ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ بہرحال اس سلسلے میں وہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کی مداخلت کے طریقہ کار سے موازنہ کر رہے ہیں۔ غزہ میں حالات مزید بدتر ہونے والے ہیں۔ زمینی حملے کا موازنہ 2016 میں عراق کے شہر موصل میں داعش کے خلاف جنگ سے کیا جا رہا ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے زیادہ تباہ کن جنگ دیکھی۔ حماس کو زمین کے اندر دبی سیکڑوں میل لمبی سرنگوں میں اپنی پوزیشنیں جمانے کے لیے برسوں لگے ہیں۔ اس جنگجو گروپ کو اسکولوں، اسپتالوں اور مساجد کے قریب پوزیشن لینے کے لیے جانا جاتا ہے جس کے سبب اسرائیل کے لیے صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ اسرائیل کی درندگی پہلے ہی موصل کے لیے امریکہ کے زیر قیادت اتحادی فضائی حملوں کے شدید ترین دور سے تجاوز کر چکی ہے۔
امریکہ نے اگرچہ اپنے اتحادی کو مسلسل حمایت فراہم کی ہے لیکن غزہ کے مستقبل کے بارے میں دونوں اتحادیوں میں اختلافات برقرار ہیں۔ نیتن یاہو کا اس بات پر اصرار ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنی سیکورٹی فورسز کی موجودگی برقرار رکھنے کی پالیسی پر عمل کرے گا اور اسرائیلی حکام اسرائیلی سرحد سے فلسطینیوں کو دور رکھنے کے لیے ایک بفر زون قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے دوبارہ احیاکے امکان کو بھی رد کرتے ہیں۔ دوسری جانب اس بارے میں امریکہ کا نظریہ مختلف ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اسرائیل غزہ پر دوبارہ قبضہ کرے یا پہلے سے ہی چھوٹی غزہ پٹی کا رقبہ مزید کم کرے۔ امریکی حکام غزہ میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کی واپسی پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے امن مذاکرات شروع کرنے پر بھی زور ہے۔ انہی مختلف نظریات کی وجہ سے اسرائیل اور امریکہ کے درمیان اس حوالے سے بات چیت مشکل نہج پر پہنچ گئی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان غزہ کے طویل مستقبل کے بارے میں دراصل پالیسی اختلافات ہیں۔ نیتن یاہو جہاں غزہ میں اسرائیلی فورسز کی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، وہیں انہوں نے بیرونی ممالک کے امن دستوں کے امکان کو بھی یہ کہتے ہوئے رد کر دیا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کو غیر مسلح رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کے بھی غزہ میں دوبارہ آنے کے امکان کو مسترد کر رہے ہیں کیونکہ محمود عباس پر انہیںبھروسہ نہیں ہے۔
ابھی تک دونوں حلیف حماس کو ختم کرنے کے ہدف پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ بھی چاہتا ہے کہ اسرائیل اپنے فوجی اہداف حاصل کر سکے، کیونکہ مستقبل میں کسی بھی تبدیلی کا یہ نقطۂ آغاز ہے۔ کچھ دنوں کے لیے امریکہ کا دباؤ فوری نوعیت کے مسائل پر ہوگا، جیسے شہری ہلاکتوں میں کمی اور انسانی ہمدردی کی امداد کی بحالی وغیرہ۔ فوجی آپریشن کے بعد ایک دورانیہ تبدیلی کا ہوگا لیکن غزہ میں شہری ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے معاملات مسلسل بگڑ رہے ہیں۔ بائیڈن الیکشن کے سال میں داخل ہو رہے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی آپریشن کو بند کرنے سے اتفاق کرتی ہے۔ اس وجہ سے آخری ہدف کے تعین کے بغیر ان اختلافات میں شدت آنے کا امکان ہے۔ ادھر اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) بار بار 10 لاکھ افراد کو شمالی غزہ سے انخلا کا حکم دیتے ہوئے خبردار کر رہی ہیں کہ جو بھی وہاں رہے گا، اسے حماس کا ’ساتھی‘ سمجھا جائے گا۔ اسرائیلی اندازوں کے مطابق یہاں تقریباً 350,000 شہری رہ گئے ہیں۔ کچھ بہت بوڑھے یا بیمار ہیں جن کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ دوسروں کو ڈر ہے کہ انہیں کبھی واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔ وہ لوگ جو جنوب کی طرف بھاگ گئے ہیں وہ بھی بمباری کی زد میں ہیں کیونکہ اسرائیل نے جنوب میں بھی حملے شروع کر دیے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل حماس کو مکمل طور پر ختم کر سکتا ہے۔ گروپ کے عسکری ونگ کے علاوہ حماس کے دسیوں ہزار کارکنان فلسطینی اتھارٹی، بیوروکریسی، اسکولوں اسپتالوں اور عدالتی نظام کے اندر موجود ہیں۔ وہ کلاسز اور اسکول چلا رہے ہیں، ڈاکٹر، نرسیں، سماجی خدمات کرنے والے، پانی اور بجلی فراہم کرنے والے لوگ ہیں۔ اسرائیل ان لوگوں کی شناخت کیسے کرے گا؟
حالانکہ اسرائیل یہ سب کچھ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کر رہا ہے لیکن جس طرح غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو غیرمعمولی انسانی مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، درحقیقت یہ سب کر کے اسرائیل عدم تحفظ کا بیج بو رہا ہے۔ جس طرح ابھی اسرائیلیوں میں بدلہ لینے کی خواہش زور مار رہی ہے، وہی انسانی جذبہ فلسطینیوں میں کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر پنپ رہا ہو گا۔
[email protected]