’ناری شکتی کی وندنا‘کا چولہ اتارتے ہوئے ’ناری دمن‘کا پھنکارتا ہوا شیش ناگ آج اپنی اصل شکل میں ظاہر ہوہی ہوگیا۔ نہ قصور، نہ ثبوت، نہ گواہی،نہ وکیل، نہ سماعت، نہ صفائی کا موقع، صرف ایک شکایت پر 6.15 لاکھ ووٹروں کی منتخب نمائندہ ایک ’ناری‘ کوآئینی اختیارسے محروم ’ اخلاقیات کمیٹی‘کی سفارش پر ملک کے سب سے بڑے ایوان سے بیک بینی دو گوش نکال باہر کیا گیاہے۔ ہندوستان کے جمہوری پارلیمانی نظام میں غالباً یہ پہلا ایسا موقع ہے جب پارلیمنٹ کی اخلاقیات کمیٹی اتنی سرگرم ہوئی کہ اسے کسی رکن کے طرز عمل میں ’ غیر اخلاقی ‘ پہلو نظرآیا، جانچ پڑتال کی رسم ادائیگی کے بعد رکنیت ختم کرنے کی سفارش ایوان میں پیش کردی۔ ایوان کے شہ نشیں بھی اتنے مستعد ہوئے کہ ملزم کو صفائی کا کوئی موقع دیے بغیر فوراًاس سفارش کو شرف قبولیت بخشا اور رکنیت منسوخ کرنے کا آناًفاناً اعلان کردیا۔
یہ کارروائی ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہواموئترا کے ساتھ ہوئی ہے۔جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ایوان میں حکومت سے سوال پوچھنے کیلئے رشوت لی ہے اور اپنے ای میل کا لاگ ان آئی ڈی اور پاس ورڈ اپنے جاننے والے دوستوں کو بتایا جس کے بعد ایک ہی دن میں کئی مقامات سے ان کا ای میل کھولا گیا۔ان مقامات میں دبئی اور امریکہ کے نام ہیں جہاں اس وقت مہواموئترا موجود نہیں تھیں جب ان کا ای میل کھولا گیا تھا۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور ایک تاجر ہیرانندانی کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کے بعد اخلاقیات کمیٹی سامنے آئی اور اس نے ’ تحقیق و جستجو‘ کا دریا پار اترتے ہوئے500 صفحات پر مشتمل ضخیم ’فرد جرم‘ تیار کی جسے رپورٹ کا نام دیاگیا۔اس رپورٹ کے ساتھ ہی مہواموئترا کی رکنیت ختم کرنے کی سفارش بھی تھی۔ پارلیمنٹ کے ایجنڈے کے مطابق یہ رپورٹ ایوان میں گزشتہ 4 دسمبر کو پیش کی جانی تھی مگر بوجوہ رپورٹ آج 8دسمبر کو پیش کی گئی۔کل جماعتی میٹنگ میں ترنمول کانگریس نے مہواموئترا کو ایوان سے نکالنے کا کوئی فیصلہ لینے سے پہلے رپورٹ پر بحث کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن مطالبہ، عرضداشت، دادفریاد کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور مہوا موئترا کی رکنیت صوتی ووٹ سے منسوخ کردی گئی۔
ایوان کے شہ نشیں اپنی اس ’کارکردگی ‘ کو عین انصاف قراردے کر خود کو ’پاسدار جمہوریت ‘ بھی ٹھہرارہے ہیں۔اسپیکر اوم برلا نے بصد اصرار یہ کہا کہ ایوان میں جس دن رپورٹ پیش کی جاتی ہے، ملزم کو بولنے کا کوئی موقع دیے بغیر سزا دی جاتی ہے۔اسپیکر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس معاملے میں اپنے پیش رو آنجہانی اسپیکر سوم ناتھ چٹرجی کی تقلید کی ہے۔آنجہانی اسپیکر نے بھی 2005میں یہی طریقہ کار اختیار کیاتھا اورملزمین کو بولنے اور صفائی کاکوئی موقع دیے بغیر کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر دس ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کردی تھی۔اب اوم برلا اپنے عمل میں کتنے صحیح ہیں، یہ تو ماہرین قانون اور پارلیمانی نظام کے ناخدائوں کو ہی معلوم ہوگا، لیکن یہ ثابت اور تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس وقت ’ کوبرااسٹنگ آپریشن ‘ کا ویڈیو سامنے آیا تھاجس میں لوک سبھا کے10اور راجیہ سبھا کے ایک رکن کو رقم وصول کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد اس وقت کے اسپیکر آنجہانی سوم ناتھ چٹرجی نے اس کی تحقیق کیلئے ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی جس کا نام ’ بنسل کمیٹی‘ تھا،جب کہ مہواموئترا کے معاملے میں لوک سبھا کی اخلاقیات کمیٹی سرگرم ہے جس کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ وہ کسی رکن کو بے گناہ یا خاطی قرار دے، سزاو تعزیر کا فیصلہ اس کے دائرۂ کار و اختیار سے باہر ہے۔ یہ فیصلہ صرف لوک سبھا کرسکتی ہے اور وہ بھی کمیٹی کی رپورٹ پر باقاعدہ بحث اور ملزم رکن کو صفائی کا موقع دینے کے بعد۔ مگر مہواموئترا کے معاملے میں نہ تو ایوان میں رپورٹ پر بحث ہوئی اور نہ انہیں اپنی صفائی کا ہی کوئی موقع دیاگیا۔اس معاملے میں تو اتنی عجلت کا مظاہرہ کیاگیا کہ اخلاقیات کمیٹی نے تحقیق کی اخلاقی اقدار تک کوطاق پر رکھ دیا اور شکایت کنندہ تاجر ہیرانندانی تک کوبھی شہادت کیلئے طلب نہیں کیا۔
فقط ڈھائی منٹ میں مکمل ہوجانے والی یہ کارروائی بتارہی ہے کہ معاملہ پہلے سے طے شدہ تھا، ایوان میں فقط رسم ادائیگی ہوئی ہے۔ورنہ حق و انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ تفتیش و تحقیق کے بعد تیار کی جانے والی فرد جرم پر ملزم کو صفائی کا موقع ملنا چاہیے۔انصاف کا بنیادی اصول یہ کہتا ہے کہ ملزم کو اپنی بات کہنے کا موقع دیاجائے،اس کے بعد ہی سزاو تعزیرکا فیصلہ جائز ہوگا۔ لیکن تقدس مآب ایوان اور عزت مآب شہ نشیں تک نے اس اصول سے صرف نظر کیا۔اور یہ اس لیے کیا گیا کہ ایوان سے ایک ایسے رکن کو نکال دیاجائے جو حکومت کی تاناشاہی پر سوال اٹھاتا ہو، جو ملک میں کم ہوتی جمہوریت سے شاکی اور عوام دشمن پالیسیوں کے بخیے ادھیڑتاہو۔ یہ تاناشاہی اور آمریت کا وطیرہ ہے کہ وہ باہر سے مضبوط اور ناقابل شکست نظرآتی ہے لیکن اندر سے اتنی کھوکھلی ہوتی ہے کہ تنقید کے ہلکے وار سے بھی اس کے در و دیوار لرز اٹھتے ہیں۔ مہواموئترا حکومت کی ایسی ہی ناقد ہیں جن کی شعلہ بیانی اور تندگفتاری سے حکمراں طبقہ بیدمجنوں بن جاتاہے۔خوف زدگی کی اسی کیفیت سے بچنے کیلئے انہیں یہ غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ’سزا ‘ دی گئی ہے۔
[email protected]
غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ’سزا ‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS